Shahid Meer

شاہد میر

ہندوستانی موسیقی کے ماہر اور گلوکار

An expert of Indian Music and Vocalist.

شاہد میر کی غزل

    دل کی دھڑکن ماتمی دھن سانس کو زنجیر کہنا

    دل کی دھڑکن ماتمی دھن سانس کو زنجیر کہنا کوئی گر پوچھے تو اپنے عہد کی تفسیر کہنا ہر قدم پر بندشوں پابندیوں کا ذکر کرنا اور اس کو حاکمان وقت کی تحریر کہنا کب تلک معصوم چہروں کو ستم پیشہ لکھو گے آنکھ کو خنجر بتانا زلف کو زنجیر کہنا وہ گھنے اشجار وہ سائے تو رخصت ہو چکے لب دھول کو ...

    مزید پڑھیے

    خوف سے اب یوں نہ اپنے گھر کا دروازہ لگا

    خوف سے اب یوں نہ اپنے گھر کا دروازہ لگا تیز ہیں کتنی ہوائیں اس کا اندازہ لگا خشک تھا موسم مگر برسی گھٹا جب یاد کی دل کا مرجھایا ہوا غنچہ تر و تازہ لگا روشنی سی کر گئی قربت کسی کے جسم کی روح میں کھلتا ہوا مشرق کا دروازہ لگا یہ اندھیری رات بے نام و نشاں کر جائے گی اپنے چہرے پر ...

    مزید پڑھیے

    ہر ارادہ مضمحل ہر فیصلہ کمزور تھا

    ہر ارادہ مضمحل ہر فیصلہ کمزور تھا دور رہ کر تم سے اپنا حال ہی کچھ اور تھا اپنے ہی اندر کہیں سمٹا ہوا بیٹھا تھا میں گھر کے باہر جب گرجتے بادلوں کا شور تھا اک اشارے پر کسی کے جس نے کاٹے تھے پہاڑ سوچتا ہوں بازوؤں میں اس کے کتنا زور تھا؟ کر لیا ہے اس نے کیوں تاریک شب کا ...

    مزید پڑھیے

    اک سبز رنگ باغ دکھایا گیا مجھے

    اک سبز رنگ باغ دکھایا گیا مجھے پھر خشک راستوں پہ چلایا گیا مجھے طے ہو چکے تھے آخری سانسوں کے مرحلے جب مژدۂ حیات سنایا گیا مجھے پہلے تو چھین لی مری آنکھوں کی روشنی پھر آئنے کے سامنے لایا گیا مجھے رکھے تھے اس نے سارے سوئچ اپنے ہاتھ میں بے وقت ہی جلایا بجھایا گیا مجھے چاروں طرف ...

    مزید پڑھیے

    سمندروں میں اگر خلفشار آب نہ ہو

    سمندروں میں اگر خلفشار آب نہ ہو سروں پہ سایہ فگن یہ غبار آب نہ ہو وہ آسمان سمجھتا ہے اپنی آنکھوں کو اسے بھی میری طرح انتظار آب نہ ہو ہر ایک لب پہ ہیں نغمات خشک سالی کے اب اس طرف کرم بے شمار آب نہ ہو کہیں فریب نہ نکلے پکار دریا کی ہم آب سمجھے ہیں جس کو غبار آب نہ ہو پھر اہتمام سے ...

    مزید پڑھیے

    اجلے موتی ہم نے مانگے تھے کسی سے تھال بھر

    اجلے موتی ہم نے مانگے تھے کسی سے تھال بھر اور اس نے دے دئیے آنسو ہمیں رومال بھر جس قدر پودے کھڑے تھے رہ گئے ہیں ڈال بھر دھوپ نے پھر بھی رویے کو نہ بدلا بال بھر یوں لگا آکاش جیسے مٹھیوں میں بھر لیا میرے قبضے میں پرندے آ گئے جب جال بھر اس کی آنکھوں کا بیاں اس کے سوا کیا ...

    مزید پڑھیے

    وار ہوا کچھ اتنا گہرا پانی کا

    وار ہوا کچھ اتنا گہرا پانی کا نکلا چٹانوں سے رستہ پانی کا دیکھا خون تو آنکھوں سے آنسو نکلے جوڑ گیا دونوں کو رشتہ پانی کا تیروں کی بوچھاڑ بھی سہنا ہے مجھ کو میرے ہاتھ میں ہے مشکیزہ پانی کا اڑتی ریت پہ لکھنا ہے تفسیر اسے جس نے سمجھ لیا ہے لہجہ پانی کا پگھلا سونا آنکھوں میں بھر ...

    مزید پڑھیے

    اے خدا ریت کے صحرا کو سمندر کر دے

    اے خدا ریت کے صحرا کو سمندر کر دے یا چھلکتی ہوئی آنکھوں کو بھی پتھر کر دے تجھ کو دیکھا نہیں محسوس کیا ہے میں نے آ کسی دن مرے احساس کو پیکر کر دے قید ہونے سے رہیں نیند کی چنچل پریاں چاہے جتنا بھی غلافوں کو معطر کر دے دل لبھاتے ہوئے خوابوں سے کہیں بہتر ہے ایک آنسو کہ جو آنکھوں کو ...

    مزید پڑھیے

    ایسے بھی کچھ غم ہوتے ہیں

    ایسے بھی کچھ غم ہوتے ہیں جو امید سے کم ہوتے ہیں آگے آگے چلتا ہے رستہ پیچھے پیچھے ہم ہوتے ہیں راگ کا وقت نکل جاتا ہے جب تک سر قائم ہوتے ہیں باہر کی خشکی پہ نہ جاؤ پتھر اندر نم ہوتے ہیں ملنے کوئی نہیں آتا جب اپنے آپ میں ہم ہوتے ہیں چہروں کی تو بھیڑ ہے لیکن سہی سلامت کم ہوتے ...

    مزید پڑھیے

    تاریکیوں کا ہم تھے ہدف دیکھتے رہے

    تاریکیوں کا ہم تھے ہدف دیکھتے رہے سیارے سب ہماری طرف دیکھتے رہے ٹکڑے ہمارے دل کے پڑے تھے یہاں وہاں تھا پتھروں سے جن کو شغف دیکھتے رہے برسی تھی ایک غم کی گھٹا اس دیار میں چہروں کا دھل رہا تھا کلف دیکھتے رہے موتی ملے نہ خواب کی پرچھائیاں ملیں آنکھوں کے کھول کھول صدف دیکھتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2