دل کی دھڑکن ماتمی دھن سانس کو زنجیر کہنا

دل کی دھڑکن ماتمی دھن سانس کو زنجیر کہنا
کوئی گر پوچھے تو اپنے عہد کی تفسیر کہنا


ہر قدم پر بندشوں پابندیوں کا ذکر کرنا
اور اس کو حاکمان وقت کی تحریر کہنا


کب تلک معصوم چہروں کو ستم پیشہ لکھو گے
آنکھ کو خنجر بتانا زلف کو زنجیر کہنا


وہ گھنے اشجار وہ سائے تو رخصت ہو چکے لب
دھول کو میراث لکھنا ریت کو جاگیر کہنا


خامشی کا گوہر نایاب رکھنا پاس لیکن
بات کہنے کی اگر ہو تم بھی شاہد میرؔ کہنا