شاہد کمال کی غزل

    ہمیں خبر بھی نہیں یار کھینچتا ہے کوئی

    ہمیں خبر بھی نہیں یار کھینچتا ہے کوئی ہمارے بیچ میں دیوار کھینچتا ہے کوئی یہ کیسا دشت تحیر ہے یاں سے کوچ کرو ہمارے پاؤں سے رفتار کھینچتا ہے کوئی ہے چاک چاک ہمارے لہو کا پیراہن ہماری روح سے جھنکار کھینچتا ہے کوئی میں چل رہا ہوں مسلسل بنا توقف کے مجھے بہ صورت پرکار کھینچتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    ننھا سا دیا ہے کہ تہہ آب ہے روشن

    ننھا سا دیا ہے کہ تہہ آب ہے روشن بجھتی ہوئی آنکھوں میں کوئی خواب ہے روشن سنسان جزیرے میں چمکتا ہوا تارا دل ہے کہ کوئی کشتیٔ شب تاب ہے روشن دہشت کے فرشتے ہیں فصیلوں پہ ہوا کی اور چاروں طرف شہر کے سیلاب ہے روشن میں ڈوبتا جاتا ہوں تری موج بدن میں یوں رقص میں کرنیں ہیں کہ گرداب ہے ...

    مزید پڑھیے

    میں کیا ہوں کون ہوں یہ بتانے سے میں رہا

    میں کیا ہوں کون ہوں یہ بتانے سے میں رہا اب خود کو خود سے خود کو ملانے سے میں رہا میں لڑ پڑا ہوں آج خود اپنے خلاف ہی اب درمیاں سے خود کو ہٹانے سے میں رہا ہے زندگی اسیر عدم جانتا ہوں میں دنیا ترے فریب میں آنے سے میں رہا مجھ میں کہاں ہے تجھ سے جدائی کا حوصلہ اے میری جان تجھ کو گنوانے ...

    مزید پڑھیے

    ابر لکھتی ہے کہیں اور گھٹا لکھتی ہے

    ابر لکھتی ہے کہیں اور گھٹا لکھتی ہے روز اک زخم مرے نام ہوا لکھتی ہے زرد پتوں کی چمکتی ہوئی پیشانی پر ہے کوئی نام جسے باد صبا لکھتی ہے جو مرے نام سے منسوب نہیں ہے لیکن وہ فسانہ بھی مرا خلق خدا لکھتی ہے اے مری جان محبت بھی عجب شے ہے کہ جو کوچۂ گرد ملامت کو وفا لکھتی ہے سن کسی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4