فکر ایجاد میں ہوں کھول نیا در کوئی
فکر ایجاد میں ہوں کھول نیا در کوئی کنج گل بھیج مری شاخ ہنر پر کوئی رنگ کچھ اور نچوڑیں گے لہو سے اپنے پھر تراشیں گے ہم اک اور نیا پیکر کوئی بھیج کچھ تازہ کمک میرے مسافر کے لئے پھر اترتا ہے مرے دشت میں لشکر کوئی آستینوں میں ہواؤں نے چھپایا ہوا ہے ہم نے دیکھا ہے چمکتا ہوا خنجر ...