شاہد کمال کی غزل

    فکر ایجاد میں ہوں کھول نیا در کوئی

    فکر ایجاد میں ہوں کھول نیا در کوئی کنج گل بھیج مری شاخ ہنر پر کوئی رنگ کچھ اور نچوڑیں گے لہو سے اپنے پھر تراشیں گے ہم اک اور نیا پیکر کوئی بھیج کچھ تازہ کمک میرے مسافر کے لئے پھر اترتا ہے مرے دشت میں لشکر کوئی آستینوں میں ہواؤں نے چھپایا ہوا ہے ہم نے دیکھا ہے چمکتا ہوا خنجر ...

    مزید پڑھیے

    کوزۂ درد میں خوشیوں کے سمندر رکھ دے

    کوزۂ درد میں خوشیوں کے سمندر رکھ دے اپنے ہونٹوں کو مرے زخم کے اوپر رکھ دے اتنی وحشت ہے کہ سینے میں الجھتا ہے یہ دل اے شب غم تو مرے سینے پہ پتھر رکھ دے سوچتا کیا ہے اسے بھی مرے سینے میں اتار تجھ سے یہ ہو نہیں سکتا ہے تو خنجر رکھ دے پھر کوئی مجھ کو مری قید سے آزاد کرے میرے اندر سے ...

    مزید پڑھیے

    کوچۂ سنگ ملامت کے سب آثار کے ساتھ

    کوچۂ سنگ ملامت کے سب آثار کے ساتھ آ گئے دشت میں ہم بھی در و دیوار کے ساتھ دشت وحشت نے مرے نوچ لی شب کی پوشاک توڑ دی پاؤں کی زنجیر بھی جھنکار کے ساتھ میری تنہائی میں اک وجد کی کیفیت ہے رقص کرتا ہوں میں اک عالم اسرار کے ساتھ گونجتا ہے مرے سینے کے نہاں خانے میں سانس لیتا ہے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    شکستہ جسم دریدہ جبین کی جانب

    شکستہ جسم دریدہ جبین کی جانب کبھی تو دیکھ مرے ہم نشین کی جانب میں اپنا زخم دکھاؤں تجھے کہ میں دیکھوں لہو میں ڈوبی ہوئی آستین کی جانب ان آسمان مزاجوں سے ہے بلا کا گریز پلٹ رہا ہوں میں اپنی زمین کی جانب کچھ اپنے حرف کے موتی کچھ اپنے لفظ کے پھول اچھال آیہ ہوں اس نازنین کی ...

    مزید پڑھیے

    جو اس زمین پہ رہتے تھے آسمان سے لوگ

    جو اس زمین پہ رہتے تھے آسمان سے لوگ کہاں گئے وہ مرے سارے مہربان سے لوگ یہ بے چراغ سی بستی یہ بے صدا گلیاں ہر ایک سمت یہ اجڑے ہوئے مکان سے لوگ سر نوشتۂ تقدیر خواب کی صورت لکھے ہیں ریت پہ کچھ حرف رائیگان سے لوگ کہ یہ اثر تو نہیں ان کی فاقہ مستی کا پھر آج تنگ ہوئے ہیں جو اپنی جان سے ...

    مزید پڑھیے

    جو مری پشت میں پیوست ہے اس تیر کو دیکھ

    جو مری پشت میں پیوست ہے اس تیر کو دیکھ کتنی خوش رنگ نظر آتی ہے تصویر کو دیکھ رقص کرتا ہوا مقتل میں چلا آیا ہوں پاؤں مت دیکھ مرے پاؤں کی زنجیر کو دیکھ کوئی نیزہ مرے سینے میں علم ہوتا ہے مری شہ رگ پہ چمکتی ہوئی شمشیر کو دیکھ خود کو ایجاد میں کرتا ہوں نئے طرز پہ روز اے مری جان کبھی ...

    مزید پڑھیے

    میں کہاں تک تجھے صفائی دوں

    میں کہاں تک تجھے صفائی دوں خود کو الزام بے وفائی دوں تجھ سے میں دشمنی شدید کروں پیار بھی تجھ کو انتہائی دوں اے مری جان گر اجازت ہو زخم کو اذن لب کشائی دوں زندگی تجھ کو اعتبار نہیں اپنے ہونے کی میں گواہی دوں مجھ کو خود میرے پاس لے آنا میں تجھے گر کہیں دکھائی دوں اک زمانہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    یہ ضرورت ہے تو پھر اس کو ضرورت سے نہ دیکھ

    یہ ضرورت ہے تو پھر اس کو ضرورت سے نہ دیکھ اپنی چاہت کو کسی اور کی چاہت سے نہ دیکھ تجھ میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن تو شرافت کو مری اپنی شرافت سے نہ دیکھ مجھ کو ہو جائے گی اب مجھ سے ہی نفرت ورنہ اے مری جان مجھے اتنی محبت سے نہ دیکھ ہنس کے ہر بوجھ زمانے کا اٹھا لیتا ہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    آج پھر روبرو کرو گے تم

    آج پھر روبرو کرو گے تم مجھ سے کیا گفتگو کرو گے تم مجھ سے لو گے مرے لہو قصاص پھر مجھے سرخ رو کرو گے تم حیف ہو میری بد مزاجی پر آپ اپنا لہو کرو گے تم تم گنوا دو گے ایک دن مجھ کو پھر مری جستجو کرو گے تم تم صف دوستاں میں ہو لیکن پھر بھی کار عدو کرو گے تم زخم پر زخم کھائے جاتے ہو اور ...

    مزید پڑھیے

    اپنی تنہائی کا سامان اٹھا لائے ہیں

    اپنی تنہائی کا سامان اٹھا لائے ہیں آج ہم میرؔ کا دیوان اٹھا لائے ہیں ان دنوں اپنی بھی وحشت کا عجب عالم ہے گھر میں ہم دشت و بیابان اٹھا لائے ہیں وسعت حلقۂ زنجیر کی آواز کے ساتھ ہم وہ قیدی ہیں کہ زندان اٹھا لائے ہیں میرے سانسوں میں کوئی گھولتا رہتا ہے الاؤ اپنے سینے میں وہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4