شاہد کمال کے تمام مواد

34 غزل (Ghazal)

    خود مجھ کو میرے دست کماں گیر سے ملا

    خود مجھ کو میرے دست کماں گیر سے ملا جو زخم بھی ملا ہے اسی تیر سے ملا تجھ کو خبر بھی ہے مرے انکار کا جواب تیغ و سنان و خنجر و شمشیر سے ملا گم ہو گیا تھا میں کہیں دشت وجود میں میں اپنے اسم ذات کی تسخیر سے ملا ملنے کی کچھ خوشی نہ بچھڑنے کا خوف ہے اے مری جان تو بڑی تاخیر سے ملا اے رمز ...

    مزید پڑھیے

    بھر گئے زخم تو کیا درد تو اب بھی کوئی ہے

    بھر گئے زخم تو کیا درد تو اب بھی کوئی ہے آنکھ روتی ہے تو رونے کا سبب بھی کوئی ہے پی گئی یہ مری تنہائی مرے دل کا لہو قطرۂ اشک پہ یہ جشن طرب بھی کوئی ہے موت سے تلخ ہے شاید تری رحمت کا عذاب جس کو کہتے ہیں غضب ایسا غضب بھی کوئی ہے روز گلشن میں یہی پوچھتی پھرتی ہے صبا تیرے پھولوں میں ...

    مزید پڑھیے

    سوچ رہا ہے اتنا کیوں اے دست بے تاخیر نکال

    سوچ رہا ہے اتنا کیوں اے دست بے تاخیر نکال تو نے اپنے ترکش میں جو رکھا ہے وہ تیر نکال جس کا کچھ انجام نہیں وہ جنگ ہے دو نقادوں کی لفظوں کی سفاک سنانیں لہجوں کی شمشیر نکال آشوب تخریب سا کچھ اس اندام تخلیق میں ہے توڑ مرے دیوار و در کو ایک نئی تعمیر نکال چاند ستاروں کی کھیتی کر رات ...

    مزید پڑھیے

    کنج دل میں ہے جو ملال اچھال

    کنج دل میں ہے جو ملال اچھال روشنی کے کنول اچھال اچھال ڈھال تو اپنے مہر و ماہ و نجوم دن اچھال اپنے ماہ و سال اچھال بے سپر ہے یہ میری تنہائی اے مری جان اپنی ڈھال اچھال اپنی آسودگیٔ جاں کے لئے میرے حصے میں کچھ وبال اچھال ہو کوئی شعر شعر شور انگیز فکر کوئی کوئی خیال اچھال جو تجھے ...

    مزید پڑھیے

    جو اس چمن میں یہ گل سرو و یاسمن کے ہیں

    جو اس چمن میں یہ گل سرو و یاسمن کے ہیں یہ جتنے رنگ ہیں سب تیرے پیرہن کے ہیں یہ سب کرشمۂ عرض ہنر اسی کے ہیں گلوں میں نقش ترے ہی لب و دہن کے ہیں طبیعتوں میں عجب رنگ اجنبیت ہے یہ شاہ پارے تو سب تیرے ارض فن کے ہیں ہوس میں عشق میں تہذیب تربیت کا ہے فرق وگرنہ دونوں اسی مکتب بدن کے ...

    مزید پڑھیے

تمام