شاہد کمال کی غزل

    خود مجھ کو میرے دست کماں گیر سے ملا

    خود مجھ کو میرے دست کماں گیر سے ملا جو زخم بھی ملا ہے اسی تیر سے ملا تجھ کو خبر بھی ہے مرے انکار کا جواب تیغ و سنان و خنجر و شمشیر سے ملا گم ہو گیا تھا میں کہیں دشت وجود میں میں اپنے اسم ذات کی تسخیر سے ملا ملنے کی کچھ خوشی نہ بچھڑنے کا خوف ہے اے مری جان تو بڑی تاخیر سے ملا اے رمز ...

    مزید پڑھیے

    بھر گئے زخم تو کیا درد تو اب بھی کوئی ہے

    بھر گئے زخم تو کیا درد تو اب بھی کوئی ہے آنکھ روتی ہے تو رونے کا سبب بھی کوئی ہے پی گئی یہ مری تنہائی مرے دل کا لہو قطرۂ اشک پہ یہ جشن طرب بھی کوئی ہے موت سے تلخ ہے شاید تری رحمت کا عذاب جس کو کہتے ہیں غضب ایسا غضب بھی کوئی ہے روز گلشن میں یہی پوچھتی پھرتی ہے صبا تیرے پھولوں میں ...

    مزید پڑھیے

    سوچ رہا ہے اتنا کیوں اے دست بے تاخیر نکال

    سوچ رہا ہے اتنا کیوں اے دست بے تاخیر نکال تو نے اپنے ترکش میں جو رکھا ہے وہ تیر نکال جس کا کچھ انجام نہیں وہ جنگ ہے دو نقادوں کی لفظوں کی سفاک سنانیں لہجوں کی شمشیر نکال آشوب تخریب سا کچھ اس اندام تخلیق میں ہے توڑ مرے دیوار و در کو ایک نئی تعمیر نکال چاند ستاروں کی کھیتی کر رات ...

    مزید پڑھیے

    کنج دل میں ہے جو ملال اچھال

    کنج دل میں ہے جو ملال اچھال روشنی کے کنول اچھال اچھال ڈھال تو اپنے مہر و ماہ و نجوم دن اچھال اپنے ماہ و سال اچھال بے سپر ہے یہ میری تنہائی اے مری جان اپنی ڈھال اچھال اپنی آسودگیٔ جاں کے لئے میرے حصے میں کچھ وبال اچھال ہو کوئی شعر شعر شور انگیز فکر کوئی کوئی خیال اچھال جو تجھے ...

    مزید پڑھیے

    جو اس چمن میں یہ گل سرو و یاسمن کے ہیں

    جو اس چمن میں یہ گل سرو و یاسمن کے ہیں یہ جتنے رنگ ہیں سب تیرے پیرہن کے ہیں یہ سب کرشمۂ عرض ہنر اسی کے ہیں گلوں میں نقش ترے ہی لب و دہن کے ہیں طبیعتوں میں عجب رنگ اجنبیت ہے یہ شاہ پارے تو سب تیرے ارض فن کے ہیں ہوس میں عشق میں تہذیب تربیت کا ہے فرق وگرنہ دونوں اسی مکتب بدن کے ...

    مزید پڑھیے

    مقتل میں چمکتی ہوئی تلوار تھے ہم لوگ

    مقتل میں چمکتی ہوئی تلوار تھے ہم لوگ جاں نذر گزاری پہ بھی تیار تھے ہم لوگ ہم اہل شرف لوگ تھے اس شہر میں لیکن رسوا بھی سر کوچہ و بازار تھے ہم لوگ کام آتے نہ تھے ہم کو بس اک کار جنوں کے دنیا کی نگاہوں میں تو بے کار تھے ہم لوگ اس نسبت حق میں یہ شرف کم تو نہیں ہے زندیق بھی کافر بھی گنہ ...

    مزید پڑھیے

    خوشیاں مت دے مجھ کو درد و کیف کی دولت دے سائیں

    خوشیاں مت دے مجھ کو درد و کیف کی دولت دے سائیں مجھ کو میرے دل کے اک اک زخم کی اجرت دے سائیں میری انا کی شہ رگ پر خود میری انا کا خنجر ہے میرے لہو کے ہر قطرے کو پھر سے حدت دے سائیں اسم ذات کا راز ہے جو خود میرے اوپر فاش تو کر میرے دل کے آئینے کو پھر سے حیرت دے سائیں توڑ دے وہ دیوار ...

    مزید پڑھیے

    اس عرصۂ محشر سے گزر کیوں نہیں جاتے

    اس عرصۂ محشر سے گزر کیوں نہیں جاتے جینے کی تمنا ہے تو مر کیوں نہیں جاتے اے شہر خرابات کے آشفتہ مزاجوں جب ٹوٹ چکے ہو تو بکھر کیوں نہیں جاتے اس درد کی شدت بھی نمو خیز بہت ہے جو زخم ہیں سینے میں وہ بھر کیوں نہیں جاتے ہم معتکف دشت اذیت تو نہیں ہیں پیروں سے مسافت کے بھنور کیوں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    عکس آئینہ خانہ سے الگ رکھا ہے

    عکس آئینہ خانہ سے الگ رکھا ہے وحشت ذات کو صحرا سے الگ رکھا ہے خود کو میں خود سے بھی ملنے نہیں دیتا ہرگز اپنی دنیا کو بھی دنیا سے الگ رکھا ہے میں کہاں ساعت امروز میں رہنے والا میں نے ہر روز کو فردا سے الگ رکھا ہے دو محاذوں پہ ابھی معرکہ آرائی ہے خیمۂ صبر کو دجلہ سے الگ رکھا ...

    مزید پڑھیے

    غموں کی رات ہے اور اتنی مختصر بھی نہیں

    غموں کی رات ہے اور اتنی مختصر بھی نہیں بہت دنوں سے تمہاری کوئی خبر بھی نہیں اے شہر دل تری گلیوں میں خاک اڑتی ہے یہ کیا ہوا کہ یہاں کوئی نوحہ گر بھی نہیں تو میرے ساتھ نہیں ہے تو سوچتا ہوں میں کہ اب تو تجھ سے بچھڑنے کا کوئی ڈر بھی نہیں میں اپنا درد کسی اور سے کہوں کیسے مرے بدن پہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4