شاہد کمال کی غزل

    ہوا کی ڈور میں ٹوٹے ہوئے تارے پروتی ہے

    ہوا کی ڈور میں ٹوٹے ہوئے تارے پروتی ہے یہ تنہائی عجب لڑکی ہے سناٹے میں روتی ہے محبت میں لگا رہتا ہے اندیشہ جدائی کا کسی کے روٹھ جانے سے کمی محسوس ہوتی ہے خموشی کی قبا پہنے ہے محو گفتگو کوئی برہنہ جسم تنہائی مرے پہلو میں سوتی ہے یہ آنکھیں روز اپنے آنسوؤں کے سرخ ریشم سے نیا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    چشم خوش آب کی تمثیل میں رہنے والے

    چشم خوش آب کی تمثیل میں رہنے والے ہم پرندے ہیں اسی جھیل میں رہنے والے ہم کو راس آتی نہیں کوچۂ جاناں کی ہوا ہم ہیں الفاظ کی تحویل میں رہنے والے کتنے آشوب گزیدہ سے نظر آتے ہیں عسرت خانۂ تکمیل میں رہنے والے اپنے الفاظ سے تجسیم کروں گا تجھ کو مجھ پہ وا ہو میری تخیل میں رہنے ...

    مزید پڑھیے

    پھر آج درد سے روشن ہوا ہے سینۂ خواب

    پھر آج درد سے روشن ہوا ہے سینۂ خواب سجا ہوا ہے مرے زخم سے مدینۂ خواب خزاں کی فصل میں جو رزق وحشت شب تھا لٹا رہا ہوں سر شب وہی خزینۂ خواب مسافران شب غم تمہاری خیر تو ہے تڑخ کے ٹوٹ گیا کیوں مرا نگینۂ خواب حقیقتوں کے بھنور سے کوئی نکالے پھر رواں کرے مری جانب کوئی سفینۂ ...

    مزید پڑھیے

    سب ہیں مصروف کسی کو یہاں فرصت نہیں ہے

    سب ہیں مصروف کسی کو یہاں فرصت نہیں ہے سب ضرورت ہے مگر کار ضرورت نہیں ہے تجھ سے دشنام طرازوں کی حمایت کے لئے اب مرے پاس کوئی حرف سہولت نہیں ہے روز اک حشر بپا کرتے تھے جس کی خاطر ہم یہ سنتے ہیں کہ وہ فتنۂ قامت نہیں ہے عکس رم سازیٔ وحشت سے اسے ہے نسبت اب تو آئینوں کو پہلی سی وہ حیرت ...

    مزید پڑھیے

    ابتدا سے میں انتہا کا ہوں

    ابتدا سے میں انتہا کا ہوں میں ہوں مغرور اور بلا کا ہوں تو بھی ہے اک چراغ مہلت شب میں بھی جھونکا کسی ہوا کا ہوں پھینک مجھ پر کمند ناز اپنی آج میں ہم سفر صبا کا ہوں جس میں ملبوس چاند رہتا ہے میں بھی تکمہ اسی قبا کا ہوں مجھ کو اپنا سمجھ رہی ہے تو میں کسی اور بے وفا کا ہوں اس میں ...

    مزید پڑھیے

    خود مجھ کو میرے دست کماں گیر سے ملا

    خود مجھ کو میرے دست کماں گیر سے ملا جو زخم بھی ملا ہے اسی تیر سے ملا تجھ کو خبر بھی ہے مرے انکار کا جواب تیغ و سنان و خنجر و شمشیر سے ملا گم ہو گیا تھا میں اسی دشت وجود میں میں اپنے اسم ذات کی تسخیر سے ملا اے رمز آگہی میں تجھے خود پہ وا کروں وحشت کو میرے پاؤں کی زنجیر سے ملا ملنے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ یقیں سا گمان سا کچھ ہے

    کچھ یقیں سا گمان سا کچھ ہے جو بھی ہے میری جان سا کچھ ہے فاصلے ختم ہو گئے لیکن پھر بھی اک درمیان سا کچھ ہے ہم یہیں پر قیام کرتے ہیں اس کھنڈر میں مکان سا کچھ ہے ہاتھ میں ہے مہار ناقۂ خاک سر پہ اک سائبان سا کچھ ہے دشت جاں میں وہ خاک اڑاتا ہوا اب بھی اک کاروان سا کچھ ہے کھل گئے اس ...

    مزید پڑھیے

    اے ذوق عرض ہنر حرف اعتدال میں رکھ

    اے ذوق عرض ہنر حرف اعتدال میں رکھ میں اک جواب ہوں مجھی کو مرے سوال میں رکھ نقوش خاک بدن کو تو منتشر کر دے مرے وجود کو پھر میرے خط و خال میں رکھ پھر اس کے بعد ہنر دیکھ معجزائی کے تو اس بدن کو مرے دست اتصال میں رکھ تو مجھ سے مانگنا پھر میرے روز و شب کا حساب اے حال حال مرے مجھ کو میرے ...

    مزید پڑھیے

    حرف کن شہ رگ ہو میں گم ہے

    حرف کن شہ رگ ہو میں گم ہے اک جہاں ذوق نمو میں گم ہے اپنے ہی حسن کا عکاس ہے حسن آئنہ آئنہ رو میں گم ہے کیف آمیز ہے کیفیت حال نشۂ مے کہ سبو میں گم ہے درد چیخ اٹھتا ہے سینے میں کوئی زخم جیسے کہ لہو میں گم ہے تیر مت دیکھ مرے زخم کو دیکھ یار یار اپنا عدو میں گم ہے کھول مت بند قبا رہنے ...

    مزید پڑھیے

    زخم جگر کو دست جراحت سے پوچھئے

    زخم جگر کو دست جراحت سے پوچھئے جو رہ گئی دلوں میں وہ حسرت سے پوچھئے جاں دادگان عیش کا انجام کیا ہوا آوارگان کوچۂ وحشت سے پوچھئے میں کھو گیا ہوں اپنی ضرورت کی بھیڑ میں میں کیا ہوں مجھ کو میری ضرورت سے پوچھئے افسوس ہے مجھے مری غیرت کی موت پر کیوں کی ہے خودکشی مری غربت سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4