مفاہمت
ہم کہ عریاں بہت ہیں تماشا نہ بن اپنی ضد چھوڑ دے میں تجھے اوڑھ لوں تو مجھے اوڑھ لے
ہم کہ عریاں بہت ہیں تماشا نہ بن اپنی ضد چھوڑ دے میں تجھے اوڑھ لوں تو مجھے اوڑھ لے
رات کے پہلو میں بیٹھا ہے سنہری اژدہا احمریں پھنکار کے مدھم سروں کا شور ہے اس گھڑی لگتا ہے وہ کچھ اور ہے بند ہوتے اور کھلتے دائروں کے درمیاں آپ اپنی ذات کے گرداب میں جیسے کوئی دیوتا محراب میں وقت کے اس نقشۂ مبہم پہ کون اس کے مسکن کا لگائے گا سراغ کون رکھے گا ہتھیلی پر چراغ اس کے نیش ...
اس قدر ہم سے گریزاں کیوں ہو کچھ نہیں ہم ہیں فقط عکس خیال ایک تصویر کا دھندلا سا نشاں حرف و معنی کے پر اسرار تسلسل میں کہیں ان کہی بات کا احساس زیاں اجنبی شہر میں چلتے چلتے راستہ ہاتھ پکڑ لے تو رکو جس طرح تیز ہوا آ کے دریچے پہ کبھی دستکیں دیتی ہے چپ چاپ پلٹ جاتی ہے اور گزر گاہ سماعت ...
پلک کے جھپکتے کئی سال بیتے میں واپس جو لوٹی تو میں نے یہ دیکھا مرے گھر کی ہر چھت ٹپکنے لگی تھی در و بام کا رنگ مدھم پڑا تھا وہ آنگن کہ جس میں مہکتی تھی چمپا اس آنگن کا ہر پھول مرجھا گیا تھا فقط ایک برگد کہ تنہا کھڑا تھا وہ تنہا تھا اور جانے کیا سوچتا تھا خزاؤں نے ہر سو بسیرا کیا ...
یہ ہم کون ہیں وقت کی شاہراہوں پہ ننگے قدم تیز تیز دھوپ میں بے ردا بے اماں راستے میں کوئی میل پتھر نہیں اور ہوائے مسافت گزرتے ہوئے رک کے کہتی ہے یہ کوئی منزل تمہارا مقدر نہیں یہ ہم کون ہیں بے یقینی کے ساحل پہ تنہا کھڑے آنکھ کی کشتیاں پانیوں کے سفر پر روانہ ہوئیں دور تک نیلگوں سبز ...