Shaheen Mufti

شاہین مفتی

  • 1954

شاہین مفتی کی نظم

    مفاہمت

    ہم کہ عریاں بہت ہیں تماشا نہ بن اپنی ضد چھوڑ دے میں تجھے اوڑھ لوں تو مجھے اوڑھ لے

    مزید پڑھیے

    کابوس

    رات کے پہلو میں بیٹھا ہے سنہری اژدہا احمریں پھنکار کے مدھم سروں کا شور ہے اس گھڑی لگتا ہے وہ کچھ اور ہے بند ہوتے اور کھلتے دائروں کے درمیاں آپ اپنی ذات کے گرداب میں جیسے کوئی دیوتا محراب میں وقت کے اس نقشۂ مبہم پہ کون اس کے مسکن کا لگائے گا سراغ کون رکھے گا ہتھیلی پر چراغ اس کے نیش ...

    مزید پڑھیے

    ضرورت کیا ہے

    اس قدر ہم سے گریزاں کیوں ہو کچھ نہیں ہم ہیں فقط عکس خیال ایک تصویر کا دھندلا سا نشاں حرف و معنی کے پر اسرار تسلسل میں کہیں ان کہی بات کا احساس زیاں اجنبی شہر میں چلتے چلتے راستہ ہاتھ پکڑ لے تو رکو جس طرح تیز ہوا آ کے دریچے پہ کبھی دستکیں دیتی ہے چپ چاپ پلٹ جاتی ہے اور گزر گاہ سماعت ...

    مزید پڑھیے

    ہجرت کی نظم

    پلک کے جھپکتے کئی سال بیتے میں واپس جو لوٹی تو میں نے یہ دیکھا مرے گھر کی ہر چھت ٹپکنے لگی تھی در و بام کا رنگ مدھم پڑا تھا وہ آنگن کہ جس میں مہکتی تھی چمپا اس آنگن کا ہر پھول مرجھا گیا تھا فقط ایک برگد کہ تنہا کھڑا تھا وہ تنہا تھا اور جانے کیا سوچتا تھا خزاؤں نے ہر سو بسیرا کیا ...

    مزید پڑھیے

    یہ ہم کون ہیں

    یہ ہم کون ہیں وقت کی شاہراہوں پہ ننگے قدم تیز تیز دھوپ میں بے ردا بے اماں راستے میں کوئی میل پتھر نہیں اور ہوائے مسافت گزرتے ہوئے رک کے کہتی ہے یہ کوئی منزل تمہارا مقدر نہیں یہ ہم کون ہیں بے یقینی کے ساحل پہ تنہا کھڑے آنکھ کی کشتیاں پانیوں کے سفر پر روانہ ہوئیں دور تک نیلگوں سبز ...

    مزید پڑھیے