Shaheen Mufti

شاہین مفتی

  • 1954

شاہین مفتی کی غزل

    مثال سنگ تپیدہ جڑے ہوئے ہیں کہیں

    مثال سنگ تپیدہ جڑے ہوئے ہیں کہیں ہمارے خواب یہیں پر پڑے ہوئے ہیں کہیں الجھ رہی ہے نئی ڈور نرم ہاتھوں سے پتنگ شاخ شجر پر اڑے ہوئے ہیں کہیں جنہیں اگایا گیا برگدوں کی چھاؤں میں بھلا وہ پیڑ چمن میں بڑے ہوئے ہیں کہیں گزر گیا وہ قیامت کی چال چلتے ہوئے جو منتظر تھے وہیں پر کھڑے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے

    اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے تو پھر شبیہ ستم گر کدھر سے آئی ہے مہک رہا ہے بدن مانگ میں ستارے ہیں شب فراق بتا کس کے گھر سے آئی ہے گلوں میں رنگ تو خون جگر سے آیا ہے مگر یہ تازگی اس چشم تر سے آئی ہے روش روش پہ کچھ ایسے ٹہل رہی ہے صبا کہ جیسے ہو کے تری رہ گزر سے آئی ہے اسے تو گوشۂ ...

    مزید پڑھیے