Shaheen Mufti

شاہین مفتی

  • 1954

شاہین مفتی کے تمام مواد

2 غزل (Ghazal)

    مثال سنگ تپیدہ جڑے ہوئے ہیں کہیں

    مثال سنگ تپیدہ جڑے ہوئے ہیں کہیں ہمارے خواب یہیں پر پڑے ہوئے ہیں کہیں الجھ رہی ہے نئی ڈور نرم ہاتھوں سے پتنگ شاخ شجر پر اڑے ہوئے ہیں کہیں جنہیں اگایا گیا برگدوں کی چھاؤں میں بھلا وہ پیڑ چمن میں بڑے ہوئے ہیں کہیں گزر گیا وہ قیامت کی چال چلتے ہوئے جو منتظر تھے وہیں پر کھڑے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے

    اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے تو پھر شبیہ ستم گر کدھر سے آئی ہے مہک رہا ہے بدن مانگ میں ستارے ہیں شب فراق بتا کس کے گھر سے آئی ہے گلوں میں رنگ تو خون جگر سے آیا ہے مگر یہ تازگی اس چشم تر سے آئی ہے روش روش پہ کچھ ایسے ٹہل رہی ہے صبا کہ جیسے ہو کے تری رہ گزر سے آئی ہے اسے تو گوشۂ ...

    مزید پڑھیے

5 نظم (Nazm)

    مفاہمت

    ہم کہ عریاں بہت ہیں تماشا نہ بن اپنی ضد چھوڑ دے میں تجھے اوڑھ لوں تو مجھے اوڑھ لے

    مزید پڑھیے

    کابوس

    رات کے پہلو میں بیٹھا ہے سنہری اژدہا احمریں پھنکار کے مدھم سروں کا شور ہے اس گھڑی لگتا ہے وہ کچھ اور ہے بند ہوتے اور کھلتے دائروں کے درمیاں آپ اپنی ذات کے گرداب میں جیسے کوئی دیوتا محراب میں وقت کے اس نقشۂ مبہم پہ کون اس کے مسکن کا لگائے گا سراغ کون رکھے گا ہتھیلی پر چراغ اس کے نیش ...

    مزید پڑھیے

    ضرورت کیا ہے

    اس قدر ہم سے گریزاں کیوں ہو کچھ نہیں ہم ہیں فقط عکس خیال ایک تصویر کا دھندلا سا نشاں حرف و معنی کے پر اسرار تسلسل میں کہیں ان کہی بات کا احساس زیاں اجنبی شہر میں چلتے چلتے راستہ ہاتھ پکڑ لے تو رکو جس طرح تیز ہوا آ کے دریچے پہ کبھی دستکیں دیتی ہے چپ چاپ پلٹ جاتی ہے اور گزر گاہ سماعت ...

    مزید پڑھیے

    ہجرت کی نظم

    پلک کے جھپکتے کئی سال بیتے میں واپس جو لوٹی تو میں نے یہ دیکھا مرے گھر کی ہر چھت ٹپکنے لگی تھی در و بام کا رنگ مدھم پڑا تھا وہ آنگن کہ جس میں مہکتی تھی چمپا اس آنگن کا ہر پھول مرجھا گیا تھا فقط ایک برگد کہ تنہا کھڑا تھا وہ تنہا تھا اور جانے کیا سوچتا تھا خزاؤں نے ہر سو بسیرا کیا ...

    مزید پڑھیے

    یہ ہم کون ہیں

    یہ ہم کون ہیں وقت کی شاہراہوں پہ ننگے قدم تیز تیز دھوپ میں بے ردا بے اماں راستے میں کوئی میل پتھر نہیں اور ہوائے مسافت گزرتے ہوئے رک کے کہتی ہے یہ کوئی منزل تمہارا مقدر نہیں یہ ہم کون ہیں بے یقینی کے ساحل پہ تنہا کھڑے آنکھ کی کشتیاں پانیوں کے سفر پر روانہ ہوئیں دور تک نیلگوں سبز ...

    مزید پڑھیے