خواب کھلنا ہے جو آنکھوں پہ وہ کب کھلتا ہے
خواب کھلنا ہے جو آنکھوں پہ وہ کب کھلتا ہے پھر بھی کہیے کہ بس اب کھلتا ہے اب کھلتا ہے باب رخصت سے گزرتا ہوں سو ہوتی ہے شناخت جس قدر دوش پہ سامان ہے سب کھلتا ہے یہ اندھیرا ہے اور ایسے ہی نہیں کھلتا یہ دیر تک روشنی کی جاتی ہے تب کھلتا ہے میری آواز پہ کھلتا تھا جو در پہلے پہل میں ...