Shaheen Abbas

شاہین عباس

شاہین عباس کی غزل

    خواب کھلنا ہے جو آنکھوں پہ وہ کب کھلتا ہے

    خواب کھلنا ہے جو آنکھوں پہ وہ کب کھلتا ہے پھر بھی کہیے کہ بس اب کھلتا ہے اب کھلتا ہے باب رخصت سے گزرتا ہوں سو ہوتی ہے شناخت جس قدر دوش پہ سامان ہے سب کھلتا ہے یہ اندھیرا ہے اور ایسے ہی نہیں کھلتا یہ دیر تک روشنی کی جاتی ہے تب کھلتا ہے میری آواز پہ کھلتا تھا جو در پہلے پہل میں ...

    مزید پڑھیے

    بولتے بولتے جب صرف زباں رہ گئے ہم

    بولتے بولتے جب صرف زباں رہ گئے ہم تب اشارے سے بتایا کہ کہاں رہ گئے ہم ہمیں اتنی بڑی دنیا کا پتہ تھوڑی تھا جہاں ہم تم ہوا کرتے تھے وہاں رہ گئے ہم ہم مکاں بھی تھے مکیں بھی تھے کہ بازار تھا گرم پھر خسارہ ہوا اور صرف مکاں رہ گئے ہم دیر تک خالی مکاں خالی نہیں چھوڑتے ہیں آپ تب تھے ہی ...

    مزید پڑھیے

    نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں

    نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں یعنی میں اتنا عام تھا ہی نہیں خواب سے کام تھا وہاں کہ جہاں خواب کا کوئی کام تھا ہی نہیں سب خبر کرنے والوں پر افسوس یہ خبر کا مقام تھا ہی نہیں تہ بہ تہ انتقام تھا سر خاک انہدام انہدام تھا ہی نہیں ہم نے توہین کی قیام کیا اس سفر میں قیام تھا ہی نہیں اب ...

    مزید پڑھیے

    موجۂ خون پریشان کہاں جاتا ہے

    موجۂ خون پریشان کہاں جاتا ہے مجھ سے آگے مرا طوفان کہاں جاتا ہے چائے کی پیالی میں تصویر وہی ہے کہ جو تھی یوں چلے جانے سے مہمان کہاں جاتا ہے میں تو جاتا ہوں بیابان نظر کے اس پار میرے ہمراہ بیابان کہاں جاتا ہے بات یونہی تو نہیں کرتا ہوں میں رک رک کر کیا بتاؤں کہ مرا دھیان کہاں ...

    مزید پڑھیے

    خواب کو خوش نما بناتے ہوئے

    خواب کو خوش نما بناتے ہوئے رات گزری دیا بناتے ہوئے میرے لہجے سے خون رسنے لگا خامشی کو دعا بناتے ہوئے شہر کے شہر کر دئے مسمار اپنا خلوت‌ کدہ بناتے ہوئے اپنی سی خاک اڑا کے بیٹھ رہے اپنا سا قافلہ بناتے ہوئے زال دنیا کو کیا صفائی دیں کیا بنایا ہے کیا بناتے ہوئے خاک اور خون جمع ...

    مزید پڑھیے

    میں ہوا تیرا ماجرا تو مرا ماجرا ہوا

    میں ہوا تیرا ماجرا تو مرا ماجرا ہوا وقت یونہی گزر گیا وقت کے بعد کیا ہوا کیسا گزشتہ دن تھا جو پھر سے گزارنا پڑا دھوپ بھی تھی بچی ہوئی سایا بھی تھا بچا ہوا صبح کے ساتھ جائے کون شام کو لے کے آئے کون رات کا گھر بسائے کون ہے کوئی جاگتا ہوا ایک مکاں میں کچھ ہوا بات سنی نہ جا سکی لوگ ...

    مزید پڑھیے

    اوپر جو پرند گا رہا ہے

    اوپر جو پرند گا رہا ہے نیچے کا مذاق اڑا رہا ہے مٹی کا بنایا نقش اس نے اب نقش کا کیا بنا رہا ہے گھر بھر کو یہ طاقچہ مبارک خود چل کے چراغ آ رہا ہے اب دوری حضوری کیا ہے صاحب بس جسم کو جسم کھا رہا ہے یہ وقت کا خاص آدمی تھا بے وقت جو گھر کو جا رہا ہے اب میں نہیں راہ میں تو رستہ میری ...

    مزید پڑھیے

    اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی

    اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی ہمیں ان حالوں ہونا بھی کوئی آسان تھا کیا محبت ایک تھی اور ایک بھی ہوتی نہیں تھی دیا پہنچا نہیں تھا آگ پہنچی تھی گھروں تک پھر ...

    مزید پڑھیے

    چار سمتوں میں نظر رکھتا ہوں میں چاروں پر

    چار سمتوں میں نظر رکھتا ہوں میں چاروں پر تیر کب لوٹ کے آئیں گے کماں داروں پر صبح اٹھے تو قدم کوئلہ تھے اور ہم تھے نیند میں چلتے رہے ہجر کے انگاروں پر داستاں میں جہاں اک دائمی دن ہوتا تھا اب وہاں شام اتر آتی ہے کرداروں پر نقش عبرت کا سب اسباب اٹھایا خود ہی ہم نے یہ کام بھی چھوڑا ...

    مزید پڑھیے

    پہلے تو مٹی کا اور پانی کا اندازہ ہوا

    پہلے تو مٹی کا اور پانی کا اندازہ ہوا پھر کہیں اپنی پریشانی کا اندازہ ہوا اے محبت تیرے دکھ سے دوستی آساں نہ تھی تجھ سا ہو کر تیری ویرانی کا اندازہ ہوا عمر بھر ہم نے فنا کے تجربے خود پر کئے عمر بھر میں عالم فانی کا اندازہ ہوا اک زمانے تک بدن بن خواب بن آداب تھے پھر اچانک اپنی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4