چار سمتوں میں نظر رکھتا ہوں میں چاروں پر

چار سمتوں میں نظر رکھتا ہوں میں چاروں پر
تیر کب لوٹ کے آئیں گے کماں داروں پر


صبح اٹھے تو قدم کوئلہ تھے اور ہم تھے
نیند میں چلتے رہے ہجر کے انگاروں پر


داستاں میں جہاں اک دائمی دن ہوتا تھا
اب وہاں شام اتر آتی ہے کرداروں پر


نقش عبرت کا سب اسباب اٹھایا خود ہی
ہم نے یہ کام بھی چھوڑا انہیں دیواروں پر


سایہ داری کی روایت بھی کہاں آ پہنچی
موج خوں چھاؤں کئے رکھتی ہے تلواروں پر


اب کھلا خواب میں کچھ خواب ملاتا تھا میں
خاک اڑاتا تھا میں سیاروں کی سیاروں پر


رات کے ٹوٹتے تاروں میں ہمیں رکھا گیا
ہمیں پرکھا گیا گرتے ہوئے معیاروں پر