خواب کو خوش نما بناتے ہوئے

خواب کو خوش نما بناتے ہوئے
رات گزری دیا بناتے ہوئے


میرے لہجے سے خون رسنے لگا
خامشی کو دعا بناتے ہوئے


شہر کے شہر کر دئے مسمار
اپنا خلوت‌ کدہ بناتے ہوئے


اپنی سی خاک اڑا کے بیٹھ رہے
اپنا سا قافلہ بناتے ہوئے


زال دنیا کو کیا صفائی دیں
کیا بنایا ہے کیا بناتے ہوئے


خاک اور خون جمع کرتا ہوں
دشت مٹتا ہوا بناتے ہوئے