Shah Naseer

شاہ نصیر

اٹھارہویں صدی کے ممتاز ترین شاعروں میں نمایاں

Prominent 18th century Delhi poet

شاہ نصیر کی غزل

    زلف کا کیا اس کی چٹکا لگ گیا

    زلف کا کیا اس کی چٹکا لگ گیا زور دل کے ہاتھ لٹکا لگ گیا تار مژگاں پر چلا جاتا ہے اشک کام پر لڑکا یہ نٹ کا لگ گیا چشم و ابرو پر نہیں موقوف کچھ جان من دل جس کا اٹکا لگ گیا جام گل میں کیوں نہ دے شبنم گلاب صبح دم غنچے کو چٹکا لگ گیا منزل گم کردہ اک میں ہوں نصیرؔ راہ سے جو کوئی بھٹکا لگ ...

    مزید پڑھیے

    نہ دکھائیو ہجر کا درد و الم تجھے دیتا ہوں چرخ خدا کی قسم

    نہ دکھائیو ہجر کا درد و الم تجھے دیتا ہوں چرخ خدا کی قسم مرے یار کو مجھ سے نہ کیجو جدا تجھے سرور ہر دوسرا کی قسم وہ صنم کئی دن سے ہے مجھ سے خفا نہیں آتا ادھر کو خدا کی قسم دل مشفق من اسے کھینچ تو لا تجھے جذبۂ کاہ ربا کی قسم یہی چاہے ہے جی کہ گلے سے لگو ذرا میرے دہن سے دہن تو ملو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    زلف چھٹتی ترے رخ پر تو دل اپنا پھرتا

    زلف چھٹتی ترے رخ پر تو دل اپنا پھرتا گھر کو بے شام نہیں صبح کا بھولا پھرتا دیکھنے کو جو مرا تو نہ تماشا پھرتا تو میں جوں شعلۂ جوالہ نہ چلتا پھرتا کب جفاؤں سے تری دل ہے ہمارا پھرتا شک اگر تجھ کو ہے ظالم تو دوبارہ پھرتا بخت برگشتۂ مجنوں ابھی سیدھے ہو جائیں دشت میں آئے اگر ناقۂ ...

    مزید پڑھیے

    نہ ذکر آشنا نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیں

    نہ ذکر آشنا نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیں حدیث یار رکھتے ہیں یہی افسانہ رکھتے ہیں چمن میں سرو قد گر جلوۂ مستانہ رکھتے ہیں برنگ طوق قمری ہم خط پیمانہ رکھتے ہیں خیال آنکھوں کا تیری جبکہ اے جانانہ رکھتے ہیں تو جوں نرگس ہر اک انگشت بر پیمانہ رکھتے ہیں نمایاں زلف کے حلقے میں کر ٹک خال ...

    مزید پڑھیے

    ترے دانت سارے سفید ہیں پئے زیب پان سے مل کر آ

    ترے دانت سارے سفید ہیں پئے زیب پان سے مل کر آ نہیں دیکھے آج تک ابر میں مجھے اب دکھانے کو اختر آ شب وعدہ تو اگر آئے ہے تو درنگ کیا ہے مرے گھر آ کہ یہ آنکھیں لگ رہی در سے ہیں شب رشک مہ بخدا در آ مرے سر پہ ہر گھڑی فاختہ کرے کام کیونکہ نہ ارے کا قد دل ربا کے حضور تو نہ چمن میں بن کے صنوبر ...

    مزید پڑھیے

    جو عین وصل میں آرام سے نہیں واقف

    جو عین وصل میں آرام سے نہیں واقف وہ مطلب دل خود کام سے نہیں واقف ہنسا چمن میں جو دل دیکھ صورت صیاد یہ مرغ دانے سے اور دام سے نہیں واقف تمام شہر میں جس کے لیے ہوئے بد نام وہ اب تلک بھی مرے نام سے نہیں واقف ہر ایک عشق کے کب قاعدے سے محرم ہے ہنوز شیخ الف لام سے نہیں واقف ہزار حیف ...

    مزید پڑھیے

    جو رقیبوں نے کہا تو وہی بد ظن سمجھا

    جو رقیبوں نے کہا تو وہی بد ظن سمجھا دوست افسوس نہ سمجھا مجھے دشمن سمجھا ناتواں وہ ہوں کہ بستر پہ مجھے دیکھ کے آہ تار بستر کوئی سمجھا کوئی سوزن سمجھا تیغ قاتل جو محبت سے لگی آ کے گلے تاب کو اس کی میں اپنی رگ گردن سمجھا اپنے پاجامۂ کمخواب کی ہر بوٹی کو شمع رو شب کو چراغ تہہ دامن ...

    مزید پڑھیے

    واں کمر باندھے ہیں مژگاں قتل پر دونوں طرف

    واں کمر باندھے ہیں مژگاں قتل پر دونوں طرف یاں صف عشاق ہیں زیر و زبر دونوں طرف زلف کا سربستہ کوچہ مانگ کا رستہ ہے تنگ دل تری شامت ہے مت جا بے خطر دونوں طرف دیر و کعبہ میں تفاوت خلق کے نزدیک ہے شاہد معنی کا ہر صورت ہے گھر دونوں طرف ہے وہ دریا میں نہاتا میں ہوں غرق آب شرم کچھ عجب اک ...

    مزید پڑھیے

    میں ضعف سے جوں نقش قدم اٹھ نہیں سکتا

    میں ضعف سے جوں نقش قدم اٹھ نہیں سکتا بیٹھا ہوں سر خاک پہ جم اٹھ نہیں سکتا اے اشک رواں ساتھ لے اب آہ جگر کو عاشق کہیں بے فوج و علم اٹھ نہیں سکتا سقف فلک کہنہ میں کیا خاک لگاؤں اے ضعف دل اس آہ کا تھم اٹھ نہیں سکتا سر معرکۂ عشق میں آساں نہیں دینا گاڑے ہے جہاں شمع قدم اٹھ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    خال مشاطہ بنا کاجل کا چشم یار پر

    خال مشاطہ بنا کاجل کا چشم یار پر زاغ کو بہر تصدق رکھ سر بیمار پر مجھ کو رحم آتا ہے دست نازک دل دار پر میں ہی رکھ دوں گا گلا اے ہمدمو تلوار پر بے سویدا ہاتھ دل مت ڈال زلف یار پر ماش پہلے پڑھ کے منتر پھینک روئے یار پر گر حفاظت رخ کی ہے منظور تو مٹوا نہ خط باغباں رکھتا ہے کانٹے باغ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5