وہم کی پرچھائیوں سے دل کو بہلاتے نہیں
وہم کی پرچھائیوں سے دل کو بہلاتے نہیں اہل دانش اس فریب شوق میں آتے نہیں مضطرب رکھتی ہے ہر لمحہ سفر کی آرزو ہم وہ راہی ہیں جو منزل پر سکوں پاتے نہیں آبگینوں کی طرح ان کی حفاظت فرض ہے ٹوٹ جاتے ہیں جو رشتے پھر نمو پاتے نہیں چھوڑ کر اک تیرے در کو در بہ در جائیں تو کیوں ہر کسی کے ...