Seemab Akbarabadi

سیماب اکبرآبادی

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، سیکڑوں شاگردوں کے استاد

One of the most prominent pre-modern Urdu Poets, having hundreds of disciples.

سیماب اکبرآبادی کی غزل

    زندان کائنات میں محصور کر دیا

    زندان کائنات میں محصور کر دیا محفل سے اپنی تم نے بہت دور کر دیا آتے ہو دینے دعوت دار و رسن ہمیں جب ہم نے ترک شیوۂ منصور کر دیا فطرت یہی ازل سے ہے برق جمال کی اس نے جسے تباہ کیا طور کر دیا تم نے ہمارے ظرف نظر پر نہ کی نگاہ سارے جہاں کو حسن سے معمور کر دیا سیمابؔ کوئی مرتبہ منصور ...

    مزید پڑھیے

    جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں

    جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں لگاؤ ہے مری تنہائیوں سے فطرت کو تمام رات ستارے لگائے جاتے ہیں سمائی جاتی ہیں دل میں وہ کفر بار آنکھیں یہ بت کدے مرے کعبے پہ چھائے جاتے ہیں سمجھ حقیر نہ ان زندگی کے لمحوں کو ارے انہیں سے زمانے بنائے ...

    مزید پڑھیے

    ختم اس طرح نزاع حق و باطل ہو جائے

    ختم اس طرح نزاع حق و باطل ہو جائے اک طرف دونوں جہاں ایک طرف دل ہو جائے دل میں وہ شورش جذبات وہ گرمی نہ رہی اب یہ شاید نگہ دوست کے قابل ہو جائے جانتا ہوں کہ وفا جی سے گزرنا ہے مگر یوں نہ دے طعن کہ جینا مجھے مشکل ہو جائے دو جہاں ترک محبت میں کئے تیرے لئے اور بیزار جو تجھ سے بھی مرا ...

    مزید پڑھیے

    یہ دور ترقی ہے رفعت کا زمانہ ہے

    یہ دور ترقی ہے رفعت کا زمانہ ہے ذروں کو اٹھانا ہے تاروں سے ملانا ہے آغوش تصور ہے اور نقش جمیل ان کا دوری ہے نہ مجبوری آنا ہے نہ جانا ہے نیرنگ محبت ہے ہر راز مرے دل کا چپ ہوں تو حقیقت ہے کہہ دوں تو فسانا ہے ارمان تجلی کا کوتاہ بھی کر قصہ اے دوست تجھے آخر اک دن نظر آنا ہے کیا شعبدہ ...

    مزید پڑھیے

    رسماً ہی ان کو نالۂ دل کی خبر تو ہو

    رسماً ہی ان کو نالۂ دل کی خبر تو ہو یعنی اثر نہ ہو تو فریب اثر تو ہو ہم بھی تمہاری بزم میں ہیں درخور کرم اچھا وہ مستقل نہ سہی اک نظر تو ہو کیا فرض ہے کہ ہم نہ ہوں تقدیر آزما دنیا پڑی ہوئی ہے در یار پر تو ہو سب کہہ رہے ہیں ہم پہ گراں ہے شب فراق اس کا بھی کچھ علاج کریں گے سحر تو ...

    مزید پڑھیے

    جہان رنگ و بو میں مستقل تخلیق مستی ہے

    جہان رنگ و بو میں مستقل تخلیق مستی ہے چمن میں رات بھر بنتی ہے اور دن بھر برستی ہے نگاہ عشق و چشم حسن دو ساون کے بادل ہے یہ جب ملتے ہیں دل پر ایک بجلی سی برستی ہے اگر ہے زندگی منظور بے سوچے فنا ہو جا مذاق عاشقی میں نیستی کا نام ہستی ہے یکایک پھر چراغ امید کے ہونے لگے روشن یہ صبح ...

    مزید پڑھیے

    دل تیرے تغافل سے خبردار نہ ہو جائے

    دل تیرے تغافل سے خبردار نہ ہو جائے یہ فتنہ کہیں خواب سے بیدار نہ ہو جائے مدت سے یہی پردہ یہی پردہ دری ہے ہو کوئی تو پردہ سے نمودار نہ ہو جائے مجھ سے مرا افسانۂ ماضی نہ سنو تم افسانہ نیا پھر کوئی تیار نہ ہو جائے اے مستئ الفت سبق کفر دیئے جا جب تک مجھے ہر چیز سے انکار نہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    بدن سے روح رخصت ہو رہی ہے

    بدن سے روح رخصت ہو رہی ہے مکمل قید غربت ہو رہی ہے میں خود ترک تعلق پر ہوں مجبور کچھ ایسی ہی طبیعت ہو رہی ہے جفا ان کی دل زود آشنا پر بہ مقدار محبت ہو رہی ہے خدا سے مل گیا ہے حسن کافر خدائی پر حکومت ہو رہی ہے نہیں تنہائی زنداں مکمل مجھے سایہ سے وحشت ہو رہی ہے یہ تم ہنس ہنس کے ...

    مزید پڑھیے

    ادراک خود آشنا نہیں ہے

    ادراک خود آشنا نہیں ہے ورنہ انساں میں کیا نہیں ہے کیا ڈھونڈھنے جاؤں میں کسی کو اپنا مجھے خود پتا نہیں ہے کیوں جام شراب ناب مانگوں ساقی کی نظر میں کیا نہیں ہے حسن اور نوازش محبت ایسا تو کبھی ہوا نہیں ہے سیمابؔ چمن میں جوش گل سے گنجائش نقش پا نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے

    چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے قفس میں رہ کے قدر آشیاں معلوم ہوتی ہے کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے سحر تک سعیٔ نالہ رائیگاں معلوم ہوتی ہے یہ دنیا تو بقدر یک فغاں معلوم ہوتی ہے کسی کے دل میں گنجائش نہیں وہ بار ہستی ہوں لحد کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4