پڑ گئے کیوں میرے پیچھے ہیں عجب استاد جی

پڑ گئے کیوں میرے پیچھے ہیں عجب استاد جی
آ گئے تصحیح کرنے بے سبب استاد جی


چاند چہرے کو گھٹا زلفوں کو کہتے ہیں مری
سارے ٹھرکی عاشقوں میں ہیں غضب استاد جی


مطلع سے مقطع تلک ساری غزل تھرا اٹھے
آئیں جب مجھ کو سکھانے شعری ڈھب استاد جی


ان کو بتلا دو جلانا پڑتا ہے خون جگر
یوں ہی بن جاتے نہیں ہیں سب کے سب استاد جی


جی میں آتا ہے کہ میں سر پھوڑ لوں دیوار سے
اپنے ہی اشعار لکھواتے ہیں جب استاد جی


کوئی تو آ کر نکالے ان کے چنگل سے مجھے
مجھ کو پاگل کر رہے ہیں روز و شب استاد جی


احترام ان کا ہے واجب مجھ پہ لیکن کیا کہوں
مجھ سی احقر کے لیے ہیں بے ادب استاد جی


جانے کب مل جائے مجھ سے بھی ذہین اک شاعرہ
مجھ کو تنہا چھوڑ جائیں جانے کب استاد جی


سچ کہوں اسی کے پیٹھے میں بھی لگتے ہیں جواں
ہیں حسینوں میں ہی کیوں پھر جاں بہ لب استاد جی


ہاں مگر کچھ دوست ایسے ہیں بہت دل کے قریں
جن سے مل کر یوں لگے ہے صرف رب استاد جی


جب سے لکھی ہے غزل سیماؔ خفا ہیں جانے کیوں
ڈر ہے راضی ہو نہ جائیں پھر سے اب استاد جی