Saud Usmani

سعود عثمانی

سعود عثمانی کی غزل

    ہر روز امتحاں سے گزارا تو میں گیا

    ہر روز امتحاں سے گزارا تو میں گیا تیرا تو کچھ نہیں گیا مارا تو میں گیا جب تک میں تیرے پاس تھا بس تیرے پاس تھا تو نے مجھے زمیں پہ اتارا تو میں گیا یہ طاق یہ چراغ مرے کام کے نہیں آیا نہیں نظر وہ دوبارہ تو میں گیا شل انگلیوں سے تھام رکھا ہے چٹان کو چھوٹا جو ہاتھ سے یہ کنارا تو میں ...

    مزید پڑھیے

    عشق سامان بھی ہے بے سر و سامانی بھی

    عشق سامان بھی ہے بے سر و سامانی بھی اسی درویش کے قدموں میں ہے سلطانی بھی ہم بھی ویسے نہ رہے دشت بھی ویسا نہ رہا عمر کے ساتھ ہی ڈھلنے لگی ویرانی بھی وہ جو برباد ہوئے تھے ترے ہاتھوں وہی لوگ دم بخود دیکھ رہے ہیں تری حیرانی بھی آخر اک روز اترنی ہے لبادوں کی طرح تن ملبوس! یہ پہنی ...

    مزید پڑھیے

    حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو

    حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو کتنی دور سے آئی ہے یہ ریت سے ہاتھ ملانے کو سات سروں کی لہروں پہ ہلکورے لیتے پھول سے ہیں اک مدہوش فضا سنتی ہے اک چڑیا کے گانے کو بولتی ہو تو یوں ہے جیسے پھول پہ تتلی ڈولتی ہو تم نے کیسا سبز کیا ہے اور کیسے ویرانے کو لیکن ان سے اور طرح کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3