Saud Usmani

سعود عثمانی

سعود عثمانی کی غزل

    حساب ترک تعلق تمام میں نے کیا

    حساب ترک تعلق تمام میں نے کیا شروع اس نے کیا اختتام میں نے کیا مجھے بھی ترک محبت پہ حیرتیں ہیں رہیں جو کام میرا نہیں تھا وہ کام میں نے کیا وہ چاہتا تھا کہ دیکھے مجھے بکھرتے ہوئے سو اس کا جشن بصد اہتمام میں نے کیا بہت دنوں مرے چہرے پہ کرچیاں سی رہیں شکست ذات کو آئینہ فام میں نے ...

    مزید پڑھیے

    ایک کتاب سرہانے رکھ دی ایک چراغ ستارا کیا

    ایک کتاب سرہانے رکھ دی ایک چراغ ستارا کیا مالک اس تنہائی میں تو نے کتنا خیال ہمارا کیا یہ تو بس اک کوشش سی تھی پہلے پیار میں رہنے کی سچ پوچھو تو ہم لوگوں میں کس نے عشق دوبارہ کیا چند ادھورے کاموں نے کچھ وقت گرفتہ لوگوں نے دن پرزے پرزے کر ڈالا رات کو پارہ پارہ کیا دل کو اک صورت ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑ گیا ہے تو اب اس سے کچھ گلا بھی نہیں

    بچھڑ گیا ہے تو اب اس سے کچھ گلا بھی نہیں کہ سچ تو یہ ہے وہ اک شخص میرا تھا بھی نہیں میں چاہتا ہوں اسے اور چاہنے کے سوا مرے لیے تو کوئی اور راستا بھی نہیں عجیب راہ گزر تھی کہ جس پہ چلتے ہوئے قدم رکے بھی نہیں راستا کٹا بھی نہیں دھواں سا کچھ تو میاں برف سے بھی اٹھتا ہے سو دل جلوں کا ...

    مزید پڑھیے

    نمو پزیر ہے اک دشت بے نمو مجھ میں

    نمو پزیر ہے اک دشت بے نمو مجھ میں ظہور کرنے کو ہے پھر شہر آرزو مجھ میں یہ زخم وہ ہے کہ جس کو دکھانا مشکل ہے ٹپک رہا ہے مسلسل مرا لہو مجھ میں رگوں میں چاپ سی کوئی سنائی دیتی ہے یہ کون ہے کہ جو پھرتا ہے کو بہ کو مجھ میں میں اپنے لہجے سے ہر لمحہ خوف کھاتا ہوں چھپا ہوا ہے کوئی شخص تند ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں ایک خواب پس خواب اور ہے

    آنکھوں میں ایک خواب پس خواب اور ہے اک موج تند و تیز تہہ آب اور ہے ان سے بھی میری دوستی ان سے بھی رنجشیں سینے میں ایک حلقۂ احباب اور ہے شاید کبھی کھلے یہ مرے نغمہ گر پہ بھی یہ ساز جسم اور ہے مضراب اور ہے چلیے کہیں زمیں کی کشش کچھ تو کم ہوئی خشکی پہ جسم اور تہہ آب اور ہے پھر آ نہ ...

    مزید پڑھیے

    دل میں رکھے ہوئے آنکھوں میں بسائے ہوئے شخص

    دل میں رکھے ہوئے آنکھوں میں بسائے ہوئے شخص پاس سے دیکھ مجھے دور سے آئے ہوئے شخص جانتا ہوں یہ ملاقات ذرا دیر کی ہے تپتی راہوں میں خنک چھاؤں کھلائے ہوئے شخص تیرے لب پر ترے رخسار کی لو پڑتی ہے تاب خورشید سے مہتاب جلائے ہوئے شخص یہ تو دنیا بھی نہیں ہے کہ کنارا کر لے تو کہاں جائے گا ...

    مزید پڑھیے

    عجیب ڈھنگ سے میں نے یہاں گزارا کیا

    عجیب ڈھنگ سے میں نے یہاں گزارا کیا کہ دل کو برف کیا ذہن کو شرارہ کیا مزاج درد کو سب لفظ بھی قبول نہ تھے کسی کسی کو ترے غم کا استعارہ کیا پھر اس کے اشک بھی اس کو ادا نہ کر پائے وہ دکھ جو اس کے تبسم نے آشکارا کیا کہ جیسے آنکھ کے لگتے ہی کھل گئیں آنکھیں نگاہ جاں نے بہت دور تک نظارہ ...

    مزید پڑھیے

    بادل کی طرح رنج فشانی کریں ہم بھی

    بادل کی طرح رنج فشانی کریں ہم بھی شاید کبھی اس آگ کو پانی کریں ہم بھی اب سلسلۂ قصۂ شب ٹوٹ رہا ہے اب اذن عطا ہو تو کہانی کریں ہم بھی ہم کو بھی کبھی دیکھ ہواؤں کے سفر میں صحرا کی طرح نقل مکانی کریں ہم بھی ایسا ہے کہ سکوں کی طرح ملک سخن میں جاری کوئی اک یاد پرانی کریں ہم بھی اس لمحۂ ...

    مزید پڑھیے

    نظر کے بھید سب اہل نظر سمجھتے ہیں

    نظر کے بھید سب اہل نظر سمجھتے ہیں جو بے خبر ہیں انہیں بے خبر سمجھتے ہیں نہ ان کی چھاؤں میں برکت نہ برگ و بار میں فیض وہ خود نمود جو خود کو شجر سمجھتے ہیں انھوں نے جھکتے ہوئے پیڑ ہی نہیں دیکھے جو اپنے کاغذی پھل کو ثمر سمجھتے ہیں حصار جاں در و دیوار سے الگ ہے میاں ہم اپنے عشق کو ہی ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں کا بھرم نہیں رہا ہے

    آنکھوں کا بھرم نہیں رہا ہے سرمایۂ نم نہیں رہا ہے ہر شے سے پلٹ رہی ہیں نظریں منظر کوئی جم نہیں رہا ہے برسوں سے رکے ہوئے ہیں لمحے اور دل ہے کہ تھم نہیں رہا ہے یوں محو غم زمانہ ہے دل جیسے ترا غم نہیں رہا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3