آنکھوں کا بھرم نہیں رہا ہے سعود عثمانی 07 ستمبر 2020 شیئر کریں آنکھوں کا بھرم نہیں رہا ہے سرمایۂ نم نہیں رہا ہے ہر شے سے پلٹ رہی ہیں نظریں منظر کوئی جم نہیں رہا ہے برسوں سے رکے ہوئے ہیں لمحے اور دل ہے کہ تھم نہیں رہا ہے یوں محو غم زمانہ ہے دل جیسے ترا غم نہیں رہا ہے