Satyapal Anand

ستیہ پال آنند

امریکہ میں مقیم نظم کے شاعر ، غزل کے خلاف خیالات کے لئے معروف

Nazm poet living in USA / Known for views against ghazal poetry

ستیہ پال آنند کی نظم

    آخری کوس

    آخری کوس مجھے آج ہی طے کرنا ہے اور اس لمبے سفر کا یہ کڑا کوس مجھے اس قدر لمبا بڑھانا ہے کہ اب سے پہلے جو بھی کچھ گزرا ہے ماضی میں اسے پھر اک بار حاضر و ناظر و موجود سا میں جھیل سکوں عرصۂ غائب و معدوم سے اس لمحے تک وادیاں جھرنے چراگاہیں مویشی پنچھی کھیت کھلیان چھپر کھٹ مرے گھر کا ...

    مزید پڑھیے

    شہر گم صم

    بلڈنگیں ذیشان اونچی شاہراہوں کے کناروں پر کھڑی تھیں شاہراہیں آتی جاتی گاڑیوں کاروں سے پر تھیں قہوہ خانوں پارکوں گلیوں محلوں اور گھروں میں زندگی معمول کی رفتار سے چلتی تھی لیکن بحر کے ساحل کی گولائی سے ہم آغوش میلوں تک یہ آبادی کا مسکن اک خموشی کی ردا اوڑھے ہوئے تھا گنگ بے آواز ...

    مزید پڑھیے

    کرونا وائرس کے بعد

    وہ جو ہر روز اپنی کھڑکی سے دیکھتا ہے کہ دور سے کوئی راہرو آئے اور وہ اس کو گھر میں مدعو کرے محبت سے بیٹھ کر گفتگو کرے اس کو اس حقیقت کا کوئی علم نہیں؟ شہر کی موت ہو چکی اور وہ اپنی کھڑکی سے جھانکنے والا اک اکیلا ہے ساری دنیا میں نسل کا آخری نمائندہ

    مزید پڑھیے

    انی کُنُت مِنَ الظَّالمَین

    کہا کس نے ستم کے دن کبھی دائم نہیں رہتے خدا کو ماننے والا وہ شاعر جو مرے اندر نہاں ہے پوچھتا ہے کہا کس نے کہ استبداد اک ضمنی حقیقت ہے کہا کس نے تشدد بربریت کم بقا کچھ سانحے سے ہیں ہمیشہ جو نہیں رہتے فقط نیرنگ ہیں کچھ دن رہیں گے اور پھر داد و ستد انصاف کی فرما روائی لوٹ آئے گی مگر ...

    مزید پڑھیے

    باد خزاں کو کیا پروا ہے

    اکتوبر ہے کہرے کی اک میلی چادر تنی ہوئی ہے اپنے گھر میں بیٹھا میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں باہر سارے پیڑ دریدہ پیلے یرقانی پتوں کے مٹ میلے ملبوس میں لپٹے نصف برہنہ باد خزاں سے الجھ رہے ہیں حرف حرف پتوں کا ابجد پت جھڑ کی بے رحم ہوا کو سونپ رہے ہیں میں بھی الف سے چلتا چلتا اب یائے ...

    مزید پڑھیے

    وش کنیا

    کس جٹا دھاری شو سے سیکھا تھا اور کب اب یہ بات یاد نہیں ناگ ودیا کا گان سانپوں کو بس میں کرنے کا فن ہمارا تھا ناگ سوامی تھے زہر کو تریاق میں بدلنے کا علم رکھتے تھے ڈر سے ینوڑھائے اپنے ناگ پھنی سانپ خود مانگتے تھے ہم سے پناہ ناگ ودیا کا سارا گیان لیے ہم کمال ہنر کے مالک تھے لیکن اک ...

    مزید پڑھیے

    فَتَکلّمُواَ تُعرَفُوا

    طبیب بھنبھنا گیا میں سب علاج کر کے تھک گیا ہوں پر یہ بچہ بولتا نہیں زبان اس کی تندرست ہے کہیں بھی کوئی رخنہ، کوئی نقص، میں نہیں سمجھ سکا بدن بھی تندرست ہے مگر یہ نونہال چار سال کا اشاروں سے ہی بات کرنا جانتا ہے، کیا کروں؟ اسے کسی سپیشلسٹ کے پاس لے کے جائیے یہ میں تھا چار سال ...

    مزید پڑھیے

    اگلا سفر طویل نہیں

    وہ دن بھی آئے ہیں اس کی سیاہ زلفوں میں کپاس کھلنے لگی ہے، جھلکتی چاندی کے کشیدہ تار چمکنے لگے ہیں بالوں میں وہ دن بھی آئے ہیں سرخ و سپید گالوں میں دھنک کا کھیلنا ممنوع ہے، لبوں پہ فقط گلوں کی تازگی اک سایۂ گریزاں ہے وہ بھی دن آئے ہیں اس کے صبیح چہرے پر کہیں کہیں کوئی سلوٹ ابھر سی ...

    مزید پڑھیے

    سانپ کو مت جگا

    سانپ سویا ہوا ہے بڑی دیر سے سردیوں کی اندھیری پٹاری میں کنڈل سا لپٹا ہوا اپنی اکلوتی بند آنکھ کھولے ہوئے پچھلی رت کے کسی بین کے سر سے سرشار پھن کو اٹھانے کے خوابوں سے دو چار ہے سانپ کو مت جگا، اے شکھنڈی ٹھہر سانپ ایک بار بیدار ہو کر اٹھا تو وہ عادت سے مجبور پھن کو اٹھائے ہوئے آنے ...

    مزید پڑھیے

    وصال

    میں نے کل شب آسماں کو گرتے دیکھا اور سوچا اب زمیں اور آسماں شاید ملیں گے رات گزری اور شفق پھولی تو میں نے چڑھتے سورج کی کلائی تھام کر اس سے کہا بھائی رکو تم دو قدم آگے بڑھے تو آسماں شاید گرے گا خشمگیں نظروں سے مجھ کو دیکھ کر سورج نے آنکھیں پھیر لیں دھیرے سے بولا آسماں ہر رات گرتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3