Sattar Syed

ستار سید

ستار سید کی غزل

    پس آئنہ خد و خال میں کوئی اور تھا

    پس آئنہ خد و خال میں کوئی اور تھا کوئی سامنے تھا خیال میں کوئی اور تھا جو دنوں کے دشت میں چل رہا تھا وہ میں نہ تھا جو دھڑکتا تھا مہ و سال میں کوئی اور تھا کوئی اور تھا مرے ساتھ دور عروج میں مرے ساتھ عہد زوال میں کوئی اور تھا جسے صید کرنا تھا دام میں وہ چلا گیا وہ جو رہ گیا ترے جال ...

    مزید پڑھیے

    اک راز دل ربا کو بیاں ہونا ہے ابھی

    اک راز دل ربا کو بیاں ہونا ہے ابھی حرف و صدا کو شعلہ بجاں ہونا ہے ابھی جاگی ہے دل میں شہد شہادت کی آرزو راہ وفا کا سنگ نشاں ہونا ہے ابھی روکا ہوا ہے تم نے ہواؤں کو کس لیے اس راکھ میں شرر کا گماں ہونا ہے ابھی سانسیں شبوں کی جاں کی طنابیں اکھڑ گئیں اگلے سفر پہ ہم کو رواں ہونا ہے ...

    مزید پڑھیے

    یوں اہتمام رد سحر کر دیا گیا

    یوں اہتمام رد سحر کر دیا گیا ہر روشنی کو شہر بدر کر دیا گیا اپنے گھروں کے سکھ سے بھی روکش دکھائی دیں لوگوں کو مبتلائے سفر کر دیا گیا جینا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں رہا جینے کو ایک کار ہنر کر دیا گیا چہروں سے رنگ ہاتھ سے آئینے چھین کر بے چہرگی کو رخت نظر کر دیا گیا اب جسم و جاں پہ ...

    مزید پڑھیے

    چمکے دوری میں کچھ عکس نشانوں کے

    چمکے دوری میں کچھ عکس نشانوں کے تیری آنکھ میں خواب جمیل جہانوں کے اترے آنکھ میں حرف سنہرے منظر کے جاگے دل میں شوق بسیط اڑانوں کے کھلے ہوئے دروازے شہر کی آنکھیں ہیں جن میں بھید کئی مہجور زمانوں کے کب بن باس کٹے اس شہر کے لوگوں کا قفل کھلیں کب جانے بند مکانوں کے ایک فصیل کھنچی ...

    مزید پڑھیے

    شہر غفلت کے مکیں ویسے تو کب جاگتے ہیں

    شہر غفلت کے مکیں ویسے تو کب جاگتے ہیں ایک اندیشۂ شبخوں ہے کہ سب جاگتے ہیں شاید اب ختم ہوا چاہتا ہے عہد سکوت حرف اعجاز کی تاثیر سے لب جاگتے ہیں راہ گم کردۂ منزل ہیں کہ منزل کا سراغ کچھ ستارے جو سر قریۂ شب جاگتے ہیں عکس ان آنکھوں سے وہ محو ہوئے جو اب تک خواب کی مثل پس چشم طلب ...

    مزید پڑھیے

    ہوا نقیب بہاراں ابھی نہیں اے دل

    ہوا نقیب بہاراں ابھی نہیں اے دل یہ رت بدلنے کا امکاں ابھی نہیں اے دل فراق نغمہ سے میرے ہی لب ملول نہیں کوئی پرندہ غزل خواں ابھی نہیں اے دل ابھی کچھ اور خجل ہو رہ تمنا پر تو اس کے لطف کا عنواں ابھی نہیں اے دل اسے بھلانے میں کچھ وقت تو لگے گا مجھے یہ کام اتنا بھی آساں ابھی نہیں اے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کے کٹہرے میں اک بے خطا آدمی کی طرح

    زندگی کے کٹہرے میں اک بے خطا آدمی کی طرح ہم مخاطب ہوئے آپ سے بے نوا آدمی کی طرح دوریوں سے ابھرتا ہوا عکس تصویر بنتا گیا گفتگو رات کرتی تھی ہم سے ہوا آدمی کی طرح کون کیا سوچتا ہے ہمارے رویوں پہ سوچا نہیں عمر ہم نے گزاری ہے اک مبتلا آدمی کی طرح روزنوں تک سے کوئی مکیں جھانکتا یہ ...

    مزید پڑھیے

    شکوۂ آب میں گم تھے جہت نشاں میرے

    شکوۂ آب میں گم تھے جہت نشاں میرے ہوا نے رکھ دیئے تہہ کر کے بادباں میرے سحر کو ساتھ اڑا لے گئی صبا جیسے یہ کس نے کر دیئے رستے دھواں دھواں میرے ترے اشارۂ ابرو پہ رت بدلتی ہے بہار ہے نہ تسلط میں ہے خزاں میرے اترنے والے سفینوں میں چھید کرتے گئے ڈبو گئے مجھے ساحل پہ مہرباں ...

    مزید پڑھیے

    وہ چراغ سا کف رہ گزار میں کون تھا

    وہ چراغ سا کف رہ گزار میں کون تھا میں کہاں تھا اور مرے انتظار میں کون تھا کوئی دھول اڑتی تھی راستوں پہ نہ کھل سکا وہ غنیم تھا کہ کمک غبار میں کون تھا کوئی شام حلقۂ دوستاں میں گزارتا جسے جا کے ملتا میں اس دیار میں کون تھا مرے خواب کس نے چرا لیے سر شام غم مری عمر جس کے تھی اختیار ...

    مزید پڑھیے

    لہو میں پھول کھلانے کہاں سے آتے ہیں

    لہو میں پھول کھلانے کہاں سے آتے ہیں نئے خیال نہ جانے کہاں سے آتے ہیں یہ کون لوگ ہیں ہر شام طاق مژگاں پر چراغ یاد جلانے کہاں سے آتے ہیں خزاں کی شاخ میں حیراں ہے آنکھ کی کونپل پلٹ کے عہد پرانے کہاں سے آتے ہیں سمندروں کو سکھاتا ہے کون طرز خرام زمیں کی تہہ میں خزانے کہاں سے آتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2