وہی ہے دشت سفر رہ گزر سے آگے بھی
وہی ہے دشت سفر رہ گزر سے آگے بھی وہی خلا ہے حدود نظر سے آگے بھی وہ آفتاب اسی صحن میں معلق ہے اگرچہ گھر ہیں بہت اس کے گھر سے آگے بھی ہمارے دم سے ہے قائم زمیں کی زرخیزی ہمارا فیض ہے شاخ شجر سے آگے بھی تلاش نور میں ہم بارہا نکل آئے نظر کے ساتھ حدود سفر سے آگے بھی غلط امید نہ باندھ ...