Sarwat Zehra

ثروت زہرا

ممتاز پاکستانی شاعرات میں نمایاں، دبئی میں مقیم

Prominent women poet from Pakistan, living in Dubai.

ثروت زہرا کی نظم

    عریضے کی ڈالی

    تری نرم لہروں پہ رکھے دیے اپنے باقی کے ہم راہ گم ہو چکے ہیں دعاؤں، تمناؤں، خوابوں کا موسم اذیت کے کیچڑ میں لتھڑا پڑا ہے خطوں کے لفافے حروف و معنی کے رنگوں سے خالی پڑے ہیں کناروں سے ڈالی گئی درخت کی سرخ رو سازشی پتیاں راستوں کے نشان کھو چکی ہیں مگر۔۔۔ اگلے دن کے حسیں خواب۔۔۔ عریضے ...

    مزید پڑھیے

    کاش

    کاش سمجھوتوں کو کانچ کی چوڑیوں کی طرح پیس کر کھایا جا سکتا تنہائی کے زہر کو شیو کے نیل کنٹھ کی طرح گلے میں رکھ کر جیا جا سکتا کاش پیاس کو اسنووہائٹ کے نصف سیب کی طرح حلق میں دبا کر موت کی نیند کا ابدی وقفہ لیا جا سکتا مگر یہ سمجھوتے تو میرے خون کو زہر کی طرح نیلا کرتے جا رے ہیں میری ...

    مزید پڑھیے

    آگہی کا جال

    مرے اپنے حروف کا جال مری روح پر تنگ ہوتا جا رہا ہے اور اب تو مری روح کی ہڈیاں چٹخ رہی ہیں اور سراب آگہی کے سامنے سر پٹخ رہی ہیں ''سکوت'' کے حروف جنہوں نے میری سماعتوں سے شور کا لہو نچوڑ لیا ہے یہ ''روشنی'' کے حروف کہ جنہوں نے مری آنکھ کے کانچ کے دیوں میں رکھا ہوا تیل پی لیا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    گمشدہ لمحے کی تلاش

    کسی آنکھ کے پپوٹوں کے کھلنے اور بند ہونے کے درمیان ایک روشنی کا آسمان اپنی چھب دکھا کے کہیں گم ہو گیا ہے اور میں کبھی اپنی آنکھ کی پتلیوں کے جاگتے ہوئے اندھیروں میں اسے ڈھونڈتی ہوں اور کبھی کھلی آنکھ کے قلم سے لکھے گئے عکس میں اسے تراشتی ہوں مگر وہ روشنی کا آسمان مجھے مل نہیں رہا ...

    مزید پڑھیے

    فنا کی انجمن سے

    بڑی گھٹن ہے سوال ہستی تو ہانپتے ہیں نظر کی عریانیاں ملی ہیں کسے کہوں کہ یہ مرے جذبوں کا باسی پن ہے بڑی گھٹن ہے جو سر بکف تھے، گرے پڑے ہیں جو گل شفق تھے، وہ نالیوں سے ابل رہے ہیں کسی جہنم کی سی جلن ہے بڑی گھٹن ہے کوئی تو روزن کوئی دریچہ کہیں دراڑوں سے کوئی رستہ فنا کی لمحوں کی ...

    مزید پڑھیے

    خاتون خانہ

    میں اپنی اولاد کے لئے دودھ کی ایک بوتل اپنے صاحب کے لئے تسکین گھر کے لیے مشین اور اپنے لیے ایک آہٹ بن کے رہ گئی ہوں میرا گھر جہاں مجھے رات اور دن انتظار کے دہکتے ہوئے لمس لپیٹ کر سونا پڑ رہا ہے خیال کی ادھ سلی باس سے کلائیوں کے گجرے گوندھ کر سنگھار کرنا پڑ رہا ہے تنہائیوں کے ...

    مزید پڑھیے

    ارتقا

    آگہی چند سمجھوتوں کا لا متناہی سلسلہ ہے جو مجھے میرے شعور کے انعام میں دیا جا رہا ہے زندگی!! صرف ایک طویل ہجر کا ذائقہ ہے جو مجھے عشق کے الزام میں دیا جا رہا ہے شاعری جذبوں کو لفظ سے گانٹھ کر مار دینے کا حوصلہ ہے جو مجھے بندگی کے نام پر دیا جا رہا ہے

    مزید پڑھیے

    اپنی ہم زاد کے لیے

    یہ مرے رو بہ رو کون ہے؟ جسم و جاں چیتھڑے کرنے والی مری جاں تو مری کون ہے؟؟؟ تیری آہیں مری تیری چیخیں مری تیرے زخموں کی آہٹ مرے جسم پر درد سہہ کے مجھے زندگی دینے والی مری جاں تو مری کون ہے؟ جبر تجھ کو ملے خوف اس کوکھ میں ہجر تو نے پئے زہر اس سوچ میں ریسماں باندھ کر پنکھڑی دینے والی ...

    مزید پڑھیے

    بے پروں کی تتلی

    یہ جھاڑن کی مٹی سے میں گر رہی ہوں یہ پنکھے کی گھوں گھوں میں میں گھومتی ہوں یہ سالن کی خوشبو پہ میں جھومتی ہوں میں بیلن سے چکلے پہ بیلی گئی ہوں توے پر پڑی ہوں ابھی پک رہی ہوں یہ ککر کی سیٹی میں میں چیختی ہوں کسی دیگچی میں پڑی گل رہی ہوں مگر جی رہی ہوں

    مزید پڑھیے

    صداؤں کا سمندر

    صداؤں کا سمندر میرے جسم میں ایک صداؤں کا سمندر ٹھہر گیا ہے یہ میری آنکھ کسی خواب کے پیہم چٹخنے کی گونج دے رہی ہے میں اپنی کوکھ میں سے خاموشیوں کے ہمکنے کی آواز سن رہی ہوں اور پھر! میری انگلی کی پوروں سے میرے حرف بہے جا رہے ہیں میرے خون کی روانیاں جسم کی نالیوں میں سے کسی بپھرتی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3