Sarvat Husain

ثروت حسین

ثروت حسین کی غزل

    اک روز میں بھی باغ عدن کو نکل گیا

    اک روز میں بھی باغ عدن کو نکل گیا توڑی جو شاخ رنگ فشاں ہاتھ جل گیا دیوار و سقف و بام نئے لگ رہے ہیں سب یہ شہر چند روز میں کتنا بدل گیا میں سو رہا تھا اور مری خواب گاہ میں اک اژدہا چراغ کی لو کو نگل گیا بچپن کی نیند ٹوٹ گئی اس کی چاپ سے میرے لبوں سے نغمۂ صبح ازل گیا تنہائی کے الاؤ ...

    مزید پڑھیے

    جب شام ہوئی میں نے قدم گھر سے نکالا

    جب شام ہوئی میں نے قدم گھر سے نکالا ڈوبا ہوا خورشید سمندر سے نکالا ہر چند کہ اس رہ میں تہی دست رہے ہم سودائے محبت نہ مگر سر سے نکالا جب چاند نمودار ہوا دور افق پر ہم نے بھی پری زاد کو پتھر سے نکالا دہکا تھا چمن اور دم صبح کسی نے اک اور ہی مفہوم گل تر سے نکالا اس مرد شفق فام نے اک ...

    مزید پڑھیے

    بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا

    بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا میں ہار گیا جنگ مگر دل نہیں ہارا روشن ہے مری عمر کے تاریک چمن میں اس کنج ملاقات میں جو وقت گزارا اپنے لیے تجویز کی شمشیر برہنہ اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا کچھ سیکھ لو لفظوں کو برتنے کا سلیقہ اس شغل میں گزرا ہے بہت وقت ہمارا لب کھولے ...

    مزید پڑھیے

    پتھروں میں آئنا موجود ہے

    پتھروں میں آئنا موجود ہے یعنی مجھ میں دوسرا موجود ہے زمزمہ پیرا کوئی تو ہے یہاں صحن گلشن میں ہوا موجود ہے خواب ہو کر رہ گیا اپنے لیے جاگ اٹھنے کی سزا موجود ہے اک سمندر ہے دل عشاق میں جس میں ہر موج بلا موجود ہے آسمانی گھنٹیوں کے شور میں اس بدن کی ہر صدا موجود ہے میں کتاب خاک ...

    مزید پڑھیے

    لہر لہر آوارگیوں کے ساتھ رہا

    لہر لہر آوارگیوں کے ساتھ رہا بادل تھا اور جل پریوں کے ساتھ رہا کون تھا میں یہ تو مجھ کو معلوم نہیں پھولوں پتوں اور دیوں کے ساتھ رہا ملنا اور بچھڑ جانا کسی رستے پر اک یہی قصہ آدمیوں کے ساتھ رہا وہ اک سورج صبح تلک مرے پہلو میں اپنی سب ناراضگیوں کے ساتھ رہا سب نے جانا بہت سبک بے ...

    مزید پڑھیے

    کس پر پوشیدہ اور کس پہ عیاں ہونا تھا

    کس پر پوشیدہ اور کس پہ عیاں ہونا تھا کون ہوں میں مجھ کو اس وقت کہاں ہونا تھا تم کہاں اس کنج آزار میں کھوئی ہوئی ہو تم کو تو میرے بچے کی ماں ہونا تھا اس سے پہلے کہاں تھے ہم کس خواب میں تھے ہم دونوں کو ایک سفر پہ رواں ہونا تھا آئینے کو سبز کیا میری آنکھوں نے مجھ سے ہی یہ کار شیشہ ...

    مزید پڑھیے

    جانے اس نے کیا دیکھا شہر کے منارے میں

    جانے اس نے کیا دیکھا شہر کے منارے میں پھر سے ہو گیا شامل زندگی کے دھارے میں اسم بھول بیٹھے ہم جسم بھول بیٹھے ہم وہ ہمیں ملی یارو رات اک ستارے میں اپنے اپنے گھر جا کر سکھ کی نیند سو جائیں تو نہیں خسارے میں میں نہیں خسارے میں میں نے دس برس پہلے جس کا نام رکھا تھا کام کر رہی ہوگی ...

    مزید پڑھیے

    منہدم ہوتی ہوئی آبادیوں میں فرصت یک خواب ہوتے

    منہدم ہوتی ہوئی آبادیوں میں فرصت یک خواب ہوتے ہم بھی اپنے خشت زاروں کے لیے آسودگی کا باب ہوتے شہر آزردہ فضا میں آبگینوں کو بروئے کار لاتے شام کی ان خانماں ویرانیوں میں صحبت احباب ہوتے تازہ و غم ناک رکھتے آس اور امید کی سب کونپلوں کو اور پھر ہم راہیٔ باد شبانہ کے لیے مہتاب ...

    مزید پڑھیے

    رات باغیچے پہ تھی اور روشنی پتھر میں تھی

    رات باغیچے پہ تھی اور روشنی پتھر میں تھی اک صحیفے کی تلاوت ذہن پیغمبر میں تھی آدمی کی بند مٹھی میں ستارہ تھا کوئی ایک جادوئی کہانی صبح کے منتر میں تھی ایک رخش سنگ تھا آتش کدے کے سامنے ایک نیلی موم بتی دست آہن گر میں تھی بیچ میں سوئی ہوئی تھی آتش آیندگاں ایک پیراہن کی ٹھنڈک ...

    مزید پڑھیے

    دشت لے جائے کہ گھر لے جائے

    دشت لے جائے کہ گھر لے جائے تیری آواز جدھر لے جائے اب یہی سوچ رہی ہیں آنکھیں کوئی تا حد نظر لے جائے منزلیں بجھ گئیں چہروں کی طرح اب جدھر راہ گزر لے جائے تیری آشفتہ مزاجی اے دل کیا خبر کون نگر لے جائے سایۂ ابر سے پوچھو ثروتؔ اپنے ہم راہ اگر لے جائے

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4