Saqib Nadeem

ثاقب ندیم

ثاقب ندیم کی نظم

    مجبوری میں ڈوبی نظم

    اپنے اپنے غموں نے ہمیں کیسا شاکی کیا ہے مجھے اپنے سیبوں کو کل شام سے پہلے ہر حال میں بیچنا ہے کوئی آئے گا انساں نما سائیکل پہ گھسٹتا ہوا جس کی قسمت کی ریکھاؤں میں مستقل تیرگی ہے وہ میرا نشانہ مرے پیٹ نے جب اصول و ضوابط کا جامہ اتارا قواعد کو پھر اپنے دل کی گلی سے نکالا مجھے کیا جو ...

    مزید پڑھیے

    بے یقینی کا پھیلتا دھواں

    میں دفتر کی کرسی پہ بیٹھا ہوا گالیاں بک رہا ہوں موسم کی حدت کو حدت میں شدت کو حدت کی شدت میں پکتے ہوئے آم کو جو کہ میرا نہیں ہے ٹیبل پہ رکھے ہوئے کام کو جو ابھی تک پڑا ہے ہوا کو ہوا میں منافق سروں کی آمیزش کو کار محبت کو کار محبت میں تپتے ہوئے حسن کو بھی جسے دیکھ کر قیس کی آنکھ جفتی ...

    مزید پڑھیے