مجبوری میں ڈوبی نظم
اپنے اپنے غموں نے ہمیں کیسا شاکی کیا ہے
مجھے اپنے سیبوں کو
کل شام سے پہلے ہر حال میں بیچنا ہے
کوئی آئے گا انساں نما
سائیکل پہ گھسٹتا ہوا
جس کی قسمت کی ریکھاؤں میں
مستقل تیرگی ہے وہ میرا نشانہ
مرے پیٹ نے جب
اصول و ضوابط کا جامہ اتارا
قواعد کو پھر اپنے دل کی گلی سے نکالا
مجھے کیا جو مسجد کے مینار پر اب
محبت بھرے پھول کھلتے نہیں ہیں
صدائے مؤذن کی کمزور دستک
سماعت کے در پر کھڑی ہانپتی ہے
مجھے کیا مرے گھر کا چولہا سوالی
مرا پیٹ خالی
مجھے اپنے سیبوں کو ہر حال میں بیچنا ہے
وہ انساں نما سائیکل پہ گھسٹتا ہوا
آ رہا ہے وہ میرا نشانہ