بے یقینی کا پھیلتا دھواں
میں دفتر کی کرسی پہ بیٹھا ہوا
گالیاں بک رہا ہوں
موسم کی حدت کو
حدت میں شدت کو
حدت کی شدت میں پکتے ہوئے آم کو
جو کہ میرا نہیں ہے
ٹیبل پہ رکھے ہوئے کام کو
جو ابھی تک پڑا ہے
ہوا کو
ہوا میں منافق سروں کی آمیزش کو
کار محبت کو
کار محبت میں تپتے ہوئے حسن کو بھی
جسے دیکھ کر قیس کی آنکھ
جفتی کے سپنوں میں ڈوبی
ٹیبل پہ اوندھا پڑا ہے جو سگریٹ کا پیکٹ
میں کہتا ہوں یوں ہی پڑا ہے
میں پیتا نہیں ہوں
کسی دن پیوں گا جیوں گا
مگر وہ مری بات پر مسکراتی ہے
اور اس کی آنکھوں میں اک بے یقینی ہے
مجھے قتل کرتی ہوئی بے یقینی
میں دفتر کی کرسی پہ بیٹھا ہوا
بے یقینی سے اس بے یقینی کو
گالیاں بک رہا ہوں
مجھے ایک سگریٹ ہی سلگا دو کوئی