سنتوش کھروڑکر کی غزل

    گزرے وقتوں کی وہ تحریر سنبھالے ہوئے ہیں

    گزرے وقتوں کی وہ تحریر سنبھالے ہوئے ہیں دل کو بہلانے کی تدبیر سنبھالے ہوئے ہیں باندھ رکھا ہے ہمیں جس نے ابھی تک جاناں ہم محبت کی وہ زنجیر سنبھالے ہوئے ہیں دیکھتے رہتے ہیں اجداد کے چہرے جس میں ہم وفاؤں کی وہ تصویر سنبھالے ہوئے ہیں جن لکیروں میں نجومی نے کہا تھا تو ہے دونوں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی سے دور کب تک جاؤ گے

    زندگی سے دور کب تک جاؤ گے کس طرح سچائی کو جھٹلاؤ گے سادگی اتنی میاں اچھی نہیں زندگی میں روز دھوکا کھاؤ گے تلخ یادیں دل سے مٹتی ہی نہیں زندگی میں چین کیسے پاؤ گے تم غموں کو مات دینا سیکھ لو اشک پیکر کب تلک غم کھاؤ گے اپنی کمزوری کو ظاہر مت کرو ورنہ ہر سودے میں گھاٹا کھاؤ گے

    مزید پڑھیے

    پہلے تھا اشک بار آج بھی ہے

    پہلے تھا اشک بار آج بھی ہے دل میرا سوگوار آج بھی ہے میں نہیں ہوں کسی بھی لائق پر آپ کو اعتبار آج بھی ہے جو تھا پہلے وہی ہے رشتۂ دل پیار وہ بے شمار آج بھی ہے عشق آنکھیں بچھائے بیٹھا ہے آپ کا انتظار آج بھی ہے لاکھ دنیا نے توڑنا چاہا دل سے دل کا قرار آج بھی ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3