ٹوٹتے ہی دم دیوں کا اک دھواں پیدا ہوا
ٹوٹتے ہی دم دیوں کا اک دھواں پیدا ہوا
سوچ کے ساگر سے نیلا آسماں پیدا ہوا
ایک مدت سے یہی تو سوچتا ہوں رات دن
میں کہاں کا آدمی تھا اور کہاں پیدا ہوا
دھوپ کی شدت نے آخر ہار تھک کر مان لی
ہم جہاں ٹھہرے وہیں پر سائباں پیدا ہوا
تیرگیٔ شب اجالوں میں بدل کر رہ گئی
آنسوؤں میں اک جمال کہکشاں پیدا ہوا