خواہشوں کا مقام تھوڑی ہے
خواہشوں کا مقام تھوڑی ہے دل کا کوئی نظام تھوڑی ہے عمر ہے یہ مرض بھی ہونا ہے اب کوئی روک تھام تھوڑی ہے یوں ہی بس ہاں میں ہاں ملاتے ہیں آپ کا احترام تھوڑی ہے شاعری بے لباس اف توبہ بزم ہے یہ حمام تھوڑی ہے داد و تحسین سب اسی کی ہے میرا خود کا کلام تھوڑی ہے