Samad Raza

صمد رضا

  • 1947

صمد رضا کی غزل

    حرف حق میری زباں سے جو نکل پڑتا ہے

    حرف حق میری زباں سے جو نکل پڑتا ہے سامنے والے کی پیشانی پہ بل پڑتا ہے ان دنوں دل کا عجب حال ہوا ہے ہمدم بات بے بات پہ کم بخت اچھل پڑتا ہے وعدۂ وصل ہے پرسوں کا مگر یاد رہے درمیاں اپنی ملاقات کے کل پڑتا ہے چاند پر جاؤ کہ مریخ پہ پہنچو لیکن اس سے آگے کی نہ سوچو کہ زحل پڑتا ہے بد دعا ...

    مزید پڑھیے

    خراشیں اور شکن آلود چہرہ بول سکتا ہے

    خراشیں اور شکن آلود چہرہ بول سکتا ہے سمجھنے والا کوئی ہو تو گونگا بول سکتا ہے ہم اپنے سے بہت چھوٹے کو بھی چھوٹا نہیں کہتے زباں اس کی ہے وہ دریا کو قطرہ بول سکتا ہے عطائے رب الگ شے ہے یہ بندوں کا دیا ہے کیا سکھاؤ جتنا طوطے کو بس اتنا بول سکتا ہے شرافت خون میں ہوتی ہے لہجے میں ...

    مزید پڑھیے

    رنگ لائے گی میری وفا دیکھنا

    رنگ لائے گی میری وفا دیکھنا مٹ ہی جائے گا ہر فاصلہ دیکھنا دعوت دید دیتے ہیں منظر کئی سامنے تم اگر ہو تو کیا دیکھنا میرا ملنا کوئی مسئلہ بھی نہیں شرط ہے کرکے کوشش ذرا دیکھنا جا رہے تو ہو تم گاؤں کو چھوڑ کر شہر کی پہلے آب و ہوا دیکھنا ہر جگہ مجھ کو پاؤ گے اپنے قریب تم کہیں سے بھی ...

    مزید پڑھیے