خراشیں اور شکن آلود چہرہ بول سکتا ہے
خراشیں اور شکن آلود چہرہ بول سکتا ہے
سمجھنے والا کوئی ہو تو گونگا بول سکتا ہے
ہم اپنے سے بہت چھوٹے کو بھی چھوٹا نہیں کہتے
زباں اس کی ہے وہ دریا کو قطرہ بول سکتا ہے
عطائے رب الگ شے ہے یہ بندوں کا دیا ہے کیا
سکھاؤ جتنا طوطے کو بس اتنا بول سکتا ہے
شرافت خون میں ہوتی ہے لہجے میں نہیں ہوتی
برا انساں کسی کو کیسے اچھا بول سکتا ہے
یہاں چلتے ہیں سارے کام نظروں کے اشارے پر
یہ بزم ناز ہے اس میں کوئی کیا بول سکتا ہے
رضاؔ جس کو ابھی رکھتے ہو تم جاں سے عزیز اپنا
عداوت میں ذرا دیکھو وہ کیا کیا بول سکتا ہے