Samad Ansari

صمد انصاری

صمد انصاری کے تمام مواد

17 غزل (Ghazal)

    اپنی لو میں کوئی ڈوبا ہی نہیں

    اپنی لو میں کوئی ڈوبا ہی نہیں چاند احساس کا ابھرا ہی نہیں کوئی آہٹ نہ کوئی نقش قدم جیسے دل سے کوئی گزرا ہی نہیں چور آئینۂ ایام بھی ہے میرا ماضی مرا فردا ہی نہیں درس میں بھی ہوں زمانے کے لیے ایک عبرت گہہ دنیا ہی نہیں کتنی صدیوں پہ رکے گا جا کر ایک لمحہ کہ جو بیتا ہی نہیں کتنا ...

    مزید پڑھیے

    ہم روح کائنات ہیں نقش اساس ہیں

    ہم روح کائنات ہیں نقش اساس ہیں ہم وقت کا خمیر زمانے کی باس ہیں تنہا ہیں ہم تمام نہ قربت نہ فاصلے ہم آپ کے قریب نہ ہم اپنے پاس ہیں کب سے ٹنگے ہوئے ہیں خلاؤں کے آس پاس کب سے یہ آسماں کے ستارے اداس ہیں خود ہٹ گئے ہیں دور وہ پانی کے زور سے دریا کے وہ کنارے جو دریا شناس ہیں خود رو ہیں ...

    مزید پڑھیے

    دست شبنم پہ دم شعلہ نوائی نہ رکھو

    دست شبنم پہ دم شعلہ نوائی نہ رکھو صبح کی گود میں شب بھر کی کمائی نہ رکھو میری یادوں کے صنم خانوں سے اٹھنے دو دھواں میرے سینے پہ ابھی دست حنائی نہ رکھو جاگ جائے نہ کہیں حسن کا سوتا پندار دیدۂ شوق میں انداز گدائی نہ رکھو شب کو رہنے دو یوں ہی شام و سحر کا پیوند ڈر کے ظلمات سے بنیاد ...

    مزید پڑھیے

    آزاد نہیں ذہن ابھی فکر بدن سے

    آزاد نہیں ذہن ابھی فکر بدن سے نکلا نہیں انسان ابھی اپنے گہن سے اب دار سے ملتا ہے ترا قامت بالا شکوہ تھا ترے قد کو بہت سرو و سمن سے موسم کا نہیں اپنے کوئی جسم شناسا ماتھے کا تعلق نہیں ماتھے کی شکن سے دشوار تھا کچھ میں بھی زمانے کے ہنر پر کچھ دور رکھا وقت نے مجھ کو مرے فن سے کیا ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں خواب سی ہیں یادیں ذرا ذرا سی

    آنکھوں میں خواب سی ہیں یادیں ذرا ذرا سی دن پر جھکی ہوئی ہیں راتیں ذرا ذرا سی موسم بدل گئے ہیں سب شہر آرزو کے کیا کر گئیں قیامت باتیں ذرا ذرا سی یہ زندگی کی بازی بازی گری نہیں ہے کیا کھیل کھیلتی ہیں ماتیں ذرا ذرا سی گزرے ہیں کارواں جب شاداب منزلوں سے قدموں میں رہ گئی ہیں راہیں ...

    مزید پڑھیے

تمام