آنکھوں میں خواب سی ہیں یادیں ذرا ذرا سی

آنکھوں میں خواب سی ہیں یادیں ذرا ذرا سی
دن پر جھکی ہوئی ہیں راتیں ذرا ذرا سی


موسم بدل گئے ہیں سب شہر آرزو کے
کیا کر گئیں قیامت باتیں ذرا ذرا سی


یہ زندگی کی بازی بازی گری نہیں ہے
کیا کھیل کھیلتی ہیں ماتیں ذرا ذرا سی


گزرے ہیں کارواں جب شاداب منزلوں سے
قدموں میں رہ گئی ہیں راہیں ذرا ذرا سی


ہے ساقیٔ افق پر باقی حساب دن کا
گلنار ہو گئی ہیں شامیں ذرا ذرا سی


ہوتا نہیں نظر کو اندازۂ نمو بھی
پھولوں میں دب گئی ہیں شاخیں ذرا ذرا سی


ان کے لہو میں اترے کیا رنگ آبرو کا
جو زندگی سے راحت مانگیں ذرا ذرا سی


سنبھلا نہیں چمن سے پھر نغمۂ بہاراں
سر سے نکل گئی ہیں تانیں ذرا ذرا سی


شاید صمدؔ کسی نے دامن رکھا ہے لو پر
کھلنے لگیں ہوا کی باہیں ذرا ذرا سی