آزاد نہیں ذہن ابھی فکر بدن سے

آزاد نہیں ذہن ابھی فکر بدن سے
نکلا نہیں انسان ابھی اپنے گہن سے


اب دار سے ملتا ہے ترا قامت بالا
شکوہ تھا ترے قد کو بہت سرو و سمن سے


موسم کا نہیں اپنے کوئی جسم شناسا
ماتھے کا تعلق نہیں ماتھے کی شکن سے


دشوار تھا کچھ میں بھی زمانے کے ہنر پر
کچھ دور رکھا وقت نے مجھ کو مرے فن سے


کیا اس کو خبر ہے کہاں لے جائے گی خوشبو
وہ پھول کہ اترا ہے ابھی شاخ چمن سے


ہر رنگ ملا ہے مجھے ماضی کی دھنک سے
ہر طرز نئی آئی ہے انداز کہن سے


اترا ہے صمدؔ شہر پہ وہ رنگ تکلف
فن کو بھی تعلق نہیں بے ساختہ پن سے