Salman Arif Barelvi

سلمان عارف بریلوی

سلمان عارف بریلوی کی غزل

    یہ ملا ہے صلہ ندامت میں

    یہ ملا ہے صلہ ندامت میں آ گیا میں بھی ابر رحمت میں بن پروں کے ہوا میں اڑتا ہے ایسا کیا ہے نشہ سیاست میں ہم ترے غم کو اپنا کہتے ہیں جان دے دیں گے اس محبت میں فیصلے سارے ان کے حق میں ہیں پھر بھی میرا یقیں عدالت میں اس کو سلمانؔ کیسے سمجھائے جس نے پا لی خودی وراثت میں

    مزید پڑھیے

    کسی کا گھر کسی کا دل جلا ہے

    کسی کا گھر کسی کا دل جلا ہے محبت میں تو یہ ہوتا رہا ہے اندھیروں نے بھی ایسا کھیل کھیلا اجالا بھی اندھیرا ہو گیا ہے وہ اپنا مانتے ہیں پھر یہ کیا ہے ہمارے بیچ یہ کیسی خلا ہے ذرا اس کی سیاست بھی تو دیکھو وفا کے نام پر کرتا جفا ہے ہرا کیسے سکے گا اس کو کوئی وہ جس کی سائباں ماں کی دوا ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا آشیاں جب سے بنا ہے

    ہمارا آشیاں جب سے بنا ہے نظر میں بجلیوں کی کھل رہا ہے رویہ آپ کا بدلا ہے جب سے ہماری جان اس دن سے خفا ہے وفا کرنے سے پہلے سوچ لینا زمانہ آج کل کا بے وفا ہے دوانہ آپ کا کوئی کہے تو بتاؤ اس میں میری کیا خطا ہے مرا سلمانؔ چھوٹا گھر ہے لیکن مرا رتبہ زمانہ کو پتہ ہے

    مزید پڑھیے