سلمان اختر کی غزل

    دائم سراب اک مرے اندر ہے کیا کروں

    دائم سراب اک مرے اندر ہے کیا کروں صحرا مری نظر میں سمندر ہے کیا کروں دیکھے جو میری نیکی کو شک کی نگاہ سے وہ آدمی بھی تو مرے اندر ہے کیا کروں یک گونہ بے خودی کو ہی اب ڈھونڈھتا ہے دل غم اور خوشی کا بوجھ برابر ہے کیا کروں اچھا تو ہے کہ سب سے ملوں ایک ہی طرح لیکن وہ اور لوگوں سے بہتر ...

    مزید پڑھیے

    رہ گیا کم ہی گو سفر باقی

    رہ گیا کم ہی گو سفر باقی دل میں خواہش کا ہے گزر باقی کیا ندی پھر سے آزمائے گی کیا ابھی اور ہیں بھنور باقی کیا اکیلے ہی آگے جانا ہے کیا نہیں کوئی ہم سفر باقی کیا وہ مجھ سے کبھی نہ بچھڑے گا کیا نہیں دل میں کوئی ڈر باقی کیا نہیں جانتا مجھے کوئی کیا نہیں شہر میں وہ گھر باقی

    مزید پڑھیے

    میں تجھ سے لاکھ بچھڑ کر یہاں وہاں جاتا

    میں تجھ سے لاکھ بچھڑ کر یہاں وہاں جاتا مری جبین سے سجدوں کا کب نشاں جاتا زمین مجھ کو سمجھتی نہ آسماں کوئی گناہ گار ہی کہلاتا میں جہاں جاتا نصیب سے تو ملے تھے فقط یہ خالی ہاتھ فراخ دل وہ نہ ہوتا تو میں کہاں جاتا مجھے خبر نہ تھی اس گھر میں کتنے کمرے ہیں میں کیسے لے کے وہاں ساری ...

    مزید پڑھیے

    درد جب شاعری میں ڈھلتے ہیں

    درد جب شاعری میں ڈھلتے ہیں دل میں ہر سو چراغ جلتے ہیں کوئی شے ایک سی نہیں رہتی عمر ڈھلتی ہے غم بدلتے ہیں جو نہیں مانگتا کسی سے کچھ شہر کے لوگ اس سے جلتے ہیں اس کی منزل جدا ہماری جدا آج گو ساتھ ساتھ چلتے ہیں لکھنؤ شاعری شراب جنوں رشتے سو طرح کے نکلتے ہیں

    مزید پڑھیے

    جاگتے میں بھی خواب دیکھے ہیں

    جاگتے میں بھی خواب دیکھے ہیں دل نے کیا کیا عذاب دیکھے ہیں آج کا دن بھی وہ نہیں جس کے ہر گھڑی ہم نے خواب دیکھے ہیں دوسرے کی کتاب کو نہ پڑھیں ایسے اہل کتاب دیکھے ہیں کیا بتائیں تمہیں کہ دنیا میں لوگ کتنے خراب دیکھے ہیں جھانکتے رات کے گریباں سے ہم نے سو آفتاب دیکھے ہیں ہم سمندر ...

    مزید پڑھیے

    بے وجہ ظلم سہنے کی عادت نہیں رہی

    بے وجہ ظلم سہنے کی عادت نہیں رہی اب ہم کو دشمنوں کی ضرورت نہیں رہی وہ بھی ہمارے نام سے بیگانے ہو گئے ہم کو بھی سچ ہے ان سے محبت نہیں رہی رہبر تمام ملک کے نظروں سے گر گئے آنکھیں کھلیں تو دل میں عقیدت نہیں رہی ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہ ہو مگر پہلے سا جوش پہلے سی شدت نہیں رہی قربت ...

    مزید پڑھیے

    کسی قسمت میں ایک گھر نکلا

    کسی قسمت میں ایک گھر نکلا کسی تقدیر میں سفر نکلا زخم سے کچھ غزل کے شعر اگے شاخ سے پھوٹ کر ثمر نکلا دوست بن کر وفا نہ کی جس نے ہوا دشمن تو معتبر نکلا نئے آنسو تھے آستیں کے لئے دامن دل کبھی کا تر نکلا جب یہ مانا کہ دل میں ڈر ہے بہت تب کہیں جا کے دل سے ڈر نکلا

    مزید پڑھیے

    کچھ تو میں بھی ڈرا ڈرا سا تھا

    کچھ تو میں بھی ڈرا ڈرا سا تھا اور کچھ راستا نیا سا تھا جھوٹ اور سچ کے درمیاں تھا جو آج وہ پل بھی ٹوٹتا سا تھا جس سے سارے چراغ جلتے تھے وہ چراغ آج کچھ بجھا سا تھا راس آئے نہ اس کے رسم و رواج شہر ہم سے خفا خفا سا تھا بت سمجھتے تھے جس کو سارے لوگ وہ مرے واسطے خدا سا تھا

    مزید پڑھیے

    ہم جو پہلے کہیں ملے ہوتے

    ہم جو پہلے کہیں ملے ہوتے اور ہی اپنے سلسلے ہوتے پھر ہر اک بات ٹھیک سے ہوتی پھر نہ الجھن نہ فاصلے ہوتے پھر نہ تنہائی رات کو ڈستی پھر نہ قسمت سے یہ گلے ہوتے پھر نہ لگتا یہ شہر اک صحرا پھر نہ گم دل کے قافلے ہوتے پھر غزل ہوتی سب زبانوں پر پھر کسی کے نہ لب سلے ہوتے پھر ہر اک لمحہ ...

    مزید پڑھیے

    ظلم ہے تخت تاج سناٹا

    ظلم ہے تخت تاج سناٹا خوف قانون راج سناٹا گفتگو تیر سی لگی دل میں اب ہے شاید علاج سناٹا سو گئیں یادیں بجھ گئی امید گھر میں کتنا ہے آج سناٹا لوگ دل کی کہیں تو کیسے کہیں چاہتا ہے سماج سناٹا اپنی عادت کہ سب سے سب کہہ دیں شہر کا ہے مزاج سناٹا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3