سلمان اختر کی غزل

    وہ پاس رہ کے بھی مجھ میں سما نہیں سکتا

    وہ پاس رہ کے بھی مجھ میں سما نہیں سکتا وہ مدتوں نہ ملے دور جا نہیں سکتا وہ ایک یاد جو دل سے مٹی نہیں اب تک وہ ایک نام جو ہونٹوں پہ آ نہیں سکتا وہ اک ہنسی جو کھنکتی ہے اب بھی کانوں میں وہ اک لطیفہ جو اب یاد آ نہیں سکتا وہ ایک خواب جو پھر لوٹ کر نہیں آیا وہ اک خیال جسے میں بھلا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کبھی خوابوں میں ملا وہ تو خیالوں میں کبھی

    کبھی خوابوں میں ملا وہ تو خیالوں میں کبھی راہ چلتے نہ ملا دن کے اجالوں میں کبھی زندگی ہم سے تو اس درجہ تغافل نہ برت ہم بھی شامل تھے ترے چاہنے والوں میں کبھی جن کا ہم آج تلک پا نہ سکے کوئی جواب خود کو ڈھونڈا کئے ان تلخ سوالوں میں کبھی تھوڑی رسوائی تمہاری بھی تو ہوگی یارو چھپ گئے ...

    مزید پڑھیے

    کہو تو آج بتا دیں تمہیں حقیقت بھی

    کہو تو آج بتا دیں تمہیں حقیقت بھی کہ زندگی سے رہی ہے ہمیں محبت بھی تمہارا حسن تو ہے جان اپنے رشتے کی برت رہے ہیں مگر ہم ذرا مروت بھی ہزار چاہیں مگر چھوٹ ہی نہیں سکتی بڑی عجیب ہے یہ مےکشی کی عادت بھی یہ زندگی کوئی محشر سہی مگر یارو سکون بخش ہے ہم کو یہی قیامت بھی ادھار لے کے ...

    مزید پڑھیے

    یہ الگ بات کہ وہ مجھ سے خفا رہتا ہے

    یہ الگ بات کہ وہ مجھ سے خفا رہتا ہے میں اک انسان ہوں اور مجھ میں خدا رہتا ہے میری باتوں میں بہت اس کی جھلک آتی ہے اس کے لہجے میں مرا ذہن بسا رہتا ہے قید میں اس سے بہادر نہ کوئی دیکھا تھا اب جو آزاد ہے تھوڑا سا ڈرا رہتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں برا ہو لیکن اپنی نظروں میں بھی گر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3