دائم سراب اک مرے اندر ہے کیا کروں
دائم سراب اک مرے اندر ہے کیا کروں صحرا مری نظر میں سمندر ہے کیا کروں دیکھے جو میری نیکی کو شک کی نگاہ سے وہ آدمی بھی تو مرے اندر ہے کیا کروں یک گونہ بے خودی کو ہی اب ڈھونڈھتا ہے دل غم اور خوشی کا بوجھ برابر ہے کیا کروں اچھا تو ہے کہ سب سے ملوں ایک ہی طرح لیکن وہ اور لوگوں سے بہتر ...