ہم جو پہلے کہیں ملے ہوتے
ہم جو پہلے کہیں ملے ہوتے
اور ہی اپنے سلسلے ہوتے
پھر ہر اک بات ٹھیک سے ہوتی
پھر نہ الجھن نہ فاصلے ہوتے
پھر نہ تنہائی رات کو ڈستی
پھر نہ قسمت سے یہ گلے ہوتے
پھر نہ لگتا یہ شہر اک صحرا
پھر نہ گم دل کے قافلے ہوتے
پھر غزل ہوتی سب زبانوں پر
پھر کسی کے نہ لب سلے ہوتے
پھر ہر اک لمحہ گنگنا اٹھتا
پھر ہر اک سمت گل کھلے ہوتے