Salim Saleem

سالم سلیم

نئی نسل کے اہم شاعر

Prominent upcoming poet.

سالم سلیم کی غزل

    نئے جہانوں کا اک استعارہ کر کے لاؤ

    نئے جہانوں کا اک استعارہ کر کے لاؤ بدن کی خاک اٹھاؤ ستارہ کر کے لاؤ وگرنہ عشق میں اک آنچ کی کمی ہوگی یہ دل ہے جاؤ اسے پارہ پارہ کر کے لاؤ تمہارے پاس ہی ہم خود کو چھوڑ آئے ہیں کبھی تم آؤ تو ہم کو ہمارا کر کے لاؤ ہوس کے گہرے سمندر سے ہیں گھرے ہوئے ہم ہمارے سامنے خود کو کنارا کر کے ...

    مزید پڑھیے

    حدود شہر طلسمات سے نہیں نکلا

    حدود شہر طلسمات سے نہیں نکلا میں اپنے دائرۂ ذات سے نہیں نکلا ابھی تو خود پہ مرا اختیار باقی ہے ابھی تو کچھ بھی مرے ہاتھ سے نہیں نکلا وہ وقت بن کے مرے سامنے رہا ہر دن تمام عمر میں اوقات سے نہیں نکلا

    مزید پڑھیے

    مرے ٹھہراؤ کو کچھ اور بھی وسعت دی جائے

    مرے ٹھہراؤ کو کچھ اور بھی وسعت دی جائے اب مجھے خود سے نکلنے کی اجازت دی جائے موت سے مل لیں کسی گوشۂ تنہائی میں زندگی سے جو کسی دن ہمیں فرصت دی جائے بے خدوخال سا اک چہرا لیے پھرتا ہوں چاہتا ہوں کہ مجھے شکل و شباہت دی جائے بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود شرط یہ ہے کہ مری خاک ...

    مزید پڑھیے

    نہ چھین لے کہیں تنہائی ڈر سا رہتا ہے

    نہ چھین لے کہیں تنہائی ڈر سا رہتا ہے مرے مکاں میں وہ دیوار و در سا رہتا ہے کبھی کبھی تو ابھرتی ہے چیخ سی کوئی کہیں کہیں مرے اندر کھنڈر سا رہتا ہے وہ آسماں ہو کہ پرچھائیں ہو کہ تیرا خیال کوئی تو ہے جو مرا ہم سفر سا رہتا ہے میں جوڑ جوڑ کے جس کو زمانہ کرتا ہوں وہ مجھ میں ٹوٹا ہوا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3