Salim Saleem

سالم سلیم

نئی نسل کے اہم شاعر

Prominent upcoming poet.

سالم سلیم کی غزل

    ذہن کی قید سے آزاد کیا جائے اسے

    ذہن کی قید سے آزاد کیا جائے اسے جس کو پانا نہیں کیا یاد کیا جائے اسے تنگ ہے روح کی خاطر جو یہ ویرانۂ جسم تم کہو تو عدم آباد کیا جائے اسے زندگی نے جو کہیں کا نہیں رکھا مجھ کو اب مجھے ضد ہے کہ برباد کیا جائے اسے یہ مرا سینۂ خالی چھلک اٹھے گا ابھی میرے اندر اگر ایجاد کیا جائے ...

    مزید پڑھیے

    پس نگاہ کوئی لو بھڑکتی رہتی ہے

    پس نگاہ کوئی لو بھڑکتی رہتی ہے یہ رات میرے بدن پر سرکتی رہتی ہے میں آپ اپنے اندھیروں میں بیٹھ جاتا ہوں پھر اس کے بعد کوئی شے چمکتی رہتی ہے ندی نے پاؤں چھوئے تھے کسی کے اس کے بعد یہ موج تند فقط سر پٹکتی رہتی ہے میں اپنے پیکر خاکی میں ہوں مگر مری روح کہاں کہاں مری خاطر بھٹکتی رہتی ...

    مزید پڑھیے

    بدن سمٹا ہوا اور دشت جاں پھیلا ہوا ہے

    بدن سمٹا ہوا اور دشت جاں پھیلا ہوا ہے سو تاحد نظر وہم و گماں پھیلا ہوا ہے ہمارے پاؤں سے کوئی زمیں لپٹی ہوئی ہے ہمارے سر پہ کوئی آسماں پھیلا ہوا ہے یہ کیسی خامشی میرے لہو میں سرسرائی یہ کیسا شور دل کے درمیاں پھیلا ہوا ہے تمہاری آگ میں خود کو جلایا تھا جو اک شب ابھی تک میرے کمرے ...

    مزید پڑھیے

    ہوا سے استفادہ کر لیا ہے

    ہوا سے استفادہ کر لیا ہے چراغوں کو لبادہ کر لیا ہے بہت جینے کی خواہش ہو رہی تھی سو مرنے کا ارادہ کر لیا ہے میں گھٹتا جا رہا ہوں اپنے اندر تمہیں اتنا زیادہ کر لیا ہے جو کاندھوں پر اٹھائے پھر رہا تھا وہ خیمہ ایستادہ کر لیا ہے نہ تھا کچھ بھی مری پیچیدگی میں تو میں نے خود کو سادہ ...

    مزید پڑھیے

    کچھ بھی نہیں ہے باقی بازار چل رہا ہے

    کچھ بھی نہیں ہے باقی بازار چل رہا ہے یہ کاروبار دنیا بے کار چل رہا ہے وہ جو زمیں پہ کب سے اک پاؤں پر کھڑا تھا سنتے ہیں آسماں کے اس پار چل رہا ہے کچھ مضمحل سا میں بھی رہتا ہوں اپنے اندر وہ بھی بہت دنوں سے بیمار چل رہا ہے شوریدگی ہماری ایسے تو کم نہ ہوگی دیکھو وہ ہو کے کتنا تیار چل ...

    مزید پڑھیے

    دالان میں کبھی کبھی چھت پر کھڑا ہوں میں

    دالان میں کبھی کبھی چھت پر کھڑا ہوں میں سایوں کے انتظار میں شب بھر کھڑا ہوں میں کیا ہو گیا کہ بیٹھ گئی خاک بھی مری کیا بات ہے کہ اپنے ہی اوپر کھڑا ہوں میں پھیلا ہوا ہے سامنے صحرائے بے کنار آنکھوں میں اپنی لے کے سمندر کھڑا ہوں میں سناٹا میرے چاروں طرف ہے بچھا ہوا بس دل کی ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک سانس کے پیچھے کوئی بلا ہی نہ ہو

    ہر ایک سانس کے پیچھے کوئی بلا ہی نہ ہو میں جی رہا ہوں تو جینا مری سزا ہی نہ ہو جو ابتدا ہے کسی انتہا میں ضم تو نہیں جو انتہا ہے کہیں وہ بھی ابتدا ہی نہ ہو مری صدائیں مجھی میں پلٹ کے آتی ہیں وہ میرے گنبد بے در میں گونجتا ہی نہ ہو بجھا رکھے ہیں یہ کس نے سبھی چراغ ہوس ذرا سا جھانک کے ...

    مزید پڑھیے

    سکوت ارض و سما میں خوب انتشار دیکھوں

    سکوت ارض و سما میں خوب انتشار دیکھوں خلا میں اپنی صدا کا پھیلا غبار دیکھوں عجب نہیں ہے کہ آ ہی جائے وہ خوش سماعت دیار دل سے میں کیوں نہ اس کو پکار دیکھوں کھڑی ہے دیوار آنسوؤں کی مرے برابر تو کس طرح میں تری تمنا کے پار دیکھوں بکھرتا جاتا ہوں جیسے تسبیح کے ہوں دانے جب اس کے آنسو ...

    مزید پڑھیے

    بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں گوشوارۂ خواب

    بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں گوشوارۂ خواب سو ہم اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں خسارۂ خواب وہ اک چراغ مگر ہم سے دور دور جلا ہمیں نے جس کو بنایا تھا استعارۂ خواب چمک رہی ہے اک آواز میرے حجرے میں کلام کرتا ہے آنکھوں سے اک ستارۂ خواب میں اہل دنیا سے مصروف جنگ ہو جاؤں کہ پچھلی رات ملا ہے ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنی خواہشیں خاک بدن میں بونے کو

    خود اپنی خواہشیں خاک بدن میں بونے کو مرا وجود ترستا ہے میرے ہونے کو یہ دیکھنا ہے کہ باری مری کب آئے گی کھڑا ہوں ساحل دریا پہ لب بھگونے کو ابھی سے کیا رکھیں آنکھوں پہ سارے دن کا حساب ابھی تو رات پڑی ہے یہ بوجھ ڈھونے کو نہ کوئی تکیۂ غم ہے نہ کوئی چادر خواب ہمیں یہ کون سا بستر ملا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3