Salim Saleem

سالم سلیم

نئی نسل کے اہم شاعر

Prominent upcoming poet.

سالم سلیم کی غزل

    زماں مکاں سے بھی کچھ ماورا بنانے میں

    زماں مکاں سے بھی کچھ ماورا بنانے میں میں منہمک ہوں بہت خود کو لا بنانے میں چراغ عشق بدن سے لگا تھا کچھ ایسا میں بجھ کے رہ گیا اس کو ہوا بنانے میں یہ دل کہ صحبت خوباں میں تھا خراب بہت سو عمر لگ گئی اس کو ذرا بنانے میں گھری ہے پیاس ہماری ہجوم آب میں اور لگا ہے دشت کوئی راستا بنانے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ تو ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی کریں ہم

    کچھ تو ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی کریں ہم آؤ دنیا کی حقیقت کو کہانی کریں ہم اپنے موجود میں ملتے ہی نہیں ہیں ہم لوگ جو ہے معدوم اسے اپنی نشانی کریں ہم پہلے اک یار بنائیں کوئی اس کے جیسا اور پھر ایجاد کوئی دشمن جانی کریں ہم جب نیا کام ہی کرنے کو نہیں ہے کوئی بیٹھے بیٹھے یوں ہی اک ...

    مزید پڑھیے

    اک نئے شہر خوش آثار کی بیماری ہے

    اک نئے شہر خوش آثار کی بیماری ہے دشت میں بھی در و دیوار کی بیماری ہے ایک ہی موت بھلا کسے کرے اس کا علاج زندگانی ہے کہ سو بار کی بیماری ہے بس اسی وجہ سے قائم ہے مری صحت عشق یہ جو مجھ کو تیرے دیدار کی بیماری ہے لوگ اقرار کرانے پہ تلے ہیں کہ مجھے اپنے ہی آپ سے انکار کی بیماری ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    جسم کی سطح پہ طوفان کیا جائے گا

    جسم کی سطح پہ طوفان کیا جائے گا اپنے ہونے کا پھر اعلان کیا جائے گا ہم رہیں گے ابھی اس آئنہ خانے میں اسیر ابھی کچھ دن ہمیں حیران کیا جائے گا سامنے سے کوئی بجلی سی گزر جائے گی میرے اندر کوئی ہیجان کیا جائے گا منزل خاک پہ جانا ہے اسی شرط کے ساتھ یہ سفر بے سر و سامان کیا جائے گا آ ...

    مزید پڑھیے

    ہنگامۂ سکوت بپا کر چکے ہیں ہم

    ہنگامۂ سکوت بپا کر چکے ہیں ہم اک عمر اس گلی میں صدا کر چکے ہیں ہم اپنے غزال دل کا نہیں مل رہا سراغ صحرا سے شہر تک تو پتا کر چکے ہیں ہم اب تیشۂ نظر سے یہ دل ٹوٹتا نہیں اس آئینے کو سنگ نما کر چکے ہیں ہم ہر بار اپنے پاؤں خلا میں اٹک گئے سو بار خود کو رزق ہوا کر چکے ہیں ہم اب اس کے بعد ...

    مزید پڑھیے

    کنار آب ترے پیرہن بدلنے کا

    کنار آب ترے پیرہن بدلنے کا مری نگاہ میں منظر ہے شام ڈھلنے کا یہ کیسی آگ ہے مجھ میں کہ ایک مدت سے تماشہ دیکھ رہا ہوں میں اپنے جلنے کا سنا ہے گھر پہ مرا منتظر نہیں کوئی سو اب کے بار میں ہرگز نہیں سنبھلنے کا خود اپنی ذات پہ مرکوز ہو گیا ہوں میں کہ حوصلہ ہی نہیں تیرے ساتھ چلنے کا اب ...

    مزید پڑھیے

    دشت کی ویرانیوں میں خیمہ زن ہوتا ہوا

    دشت کی ویرانیوں میں خیمہ زن ہوتا ہوا مجھ میں ٹھہرا ہے کوئی بے پیرہن ہوتا ہوا ایک پرچھائیں مرے قدموں میں بل کھاتی ہوئی ایک سورج میرے ماتھے کی شکن ہوتا ہوا ایک کشتی غرق میری آنکھ میں ہوتی ہوئی اک سمندر میرے اندر موجزن ہوتا ہوا جز ہمارے کون آخر دیکھتا اس کام کو روح کے اندر کوئی ...

    مزید پڑھیے

    کام ہر روز یہ ہوتا ہے کس آسانی سے

    کام ہر روز یہ ہوتا ہے کس آسانی سے اس نے پھر مجھ کو سمیٹا ہے پریشانی سے مجھ پہ کھلتا ہے تری یاد کا جب باب طلسم تنگ ہو جاتا ہوں احساس فراوانی سے آخرش کون ہے جو گھورتا رہتا ہے مجھے دیکھتا رہتا ہوں آئینے کو حیرانی سے میری مٹی میں کوئی آگ سی لگ جاتی ہے جو بھڑکتی ہے ترے چھڑکے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    ایک ہنگامہ بپا ہے عرصۂ افلاک پر

    ایک ہنگامہ بپا ہے عرصۂ افلاک پر خامشی پھیلا رکھی ہے آج میں نے خاک پر اب مرا سارا ہنر مٹی میں مل جانے ہے ہاتھ اس نے رکھ دئے ہیں دیدۂ نمناک پر روز بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بینائی مری روز رکھ دیتا ہوں آنکھوں کو تیری پوشاک پر

    مزید پڑھیے

    میری ارزانی سے مجھ کو وہ نکالے گا مگر (ردیف .. ے)

    میری ارزانی سے مجھ کو وہ نکالے گا مگر اپنے اوپر ایک دن قربان کر دے گا مجھے منجمد کر دے گا مجھ میں آ کے وہ سارا لہو دیکھتے ہی دیکھتے بے جان کر دے گا مجھے کتنا مشکل ہو گیا ہوں ہجر میں اس کے سو وہ میرے پاس آئے گا اور آسان کر دے گا مجھے رفتہ رفتہ ساری تصویریں دمکتی جائیں گی اپنے کمرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3