ہوا سے استفادہ کر لیا ہے

ہوا سے استفادہ کر لیا ہے
چراغوں کو لبادہ کر لیا ہے


بہت جینے کی خواہش ہو رہی تھی
سو مرنے کا ارادہ کر لیا ہے


میں گھٹتا جا رہا ہوں اپنے اندر
تمہیں اتنا زیادہ کر لیا ہے


جو کاندھوں پر اٹھائے پھر رہا تھا
وہ خیمہ ایستادہ کر لیا ہے


نہ تھا کچھ بھی مری پیچیدگی میں
تو میں نے خود کو سادہ کر لیا ہے