Saleem Shahid

سلیم شاہد

سلیم شاہد کے تمام مواد

37 غزل (Ghazal)

    طرز اظہار میں کوئی تو نیا پن ہوتا

    طرز اظہار میں کوئی تو نیا پن ہوتا درد رنگین بدن شیشے کا برتن ہوتا کس لیے روز بدلتا ہوں میں ملبوس نیا ایسا کچا تو نہ اس نقش کا روغن ہوتا پیر کمرے سے نکالے تو میں بازار میں تھا ہے یہ حسرت کہ مرے گھر کا بھی آنگن ہوتا آنچ مل جاتی جو کچھ اور تو جوہر کھلتے تم جسے راکھ سمجھتے ہو وہ کندن ...

    مزید پڑھیے

    جرأت اظہار کا عقدہ یہاں کیسے کھلے

    جرأت اظہار کا عقدہ یہاں کیسے کھلے مصلحت کا بیم دل میں ہے زباں کیسے کھلے بے دلی سے ہے رگ و پے میں لہو ٹھہرا ہوا آنکھ میں پوشیدہ زخموں کا نشاں کیسے کھلے دام ساحل ہے سفینے کی اسیری کا سبب سر پٹکتا ہوں کہ اب یہ بادباں کیسے کھلے حرف مبہم کی طرح اوراق روز و شب میں ہوں راز آخر دشمنوں ...

    مزید پڑھیے

    روشن سکوت سب اسی شعلہ بیاں سے ہے

    روشن سکوت سب اسی شعلہ بیاں سے ہے اس خامشی میں دل کی توقع زباں سے ہے خاشاک ہیں وہ برگ جو ٹوٹے شجر سے ہوں ہم سے مسافروں کا بھرم کارواں سے ہے احساس گمرہی سے مسافت ہے جی کا روگ اب کے تھکن مجھے سفر رائیگاں سے ہے یا آ کے رک گئی ہے خط تیرگی پہ آنکھ ہے روشنی تو ٹوٹی ہوئی درمیاں سے ہے جب ...

    مزید پڑھیے

    ابر سرکا چاند کی چہرہ نمائی ہو گئی

    ابر سرکا چاند کی چہرہ نمائی ہو گئی اک جھلک دیکھا اسے اور آشنائی ہو گئی سو گیا تو خواب اپنے گھر میں لے آئے مجھے جیسے میری وقت سے پہلے رہائی ہو گئی میرے کمرے میں کوئی تصویر پہلے تو نہ تھی اس کو دیکھا سادے کاغذ پر چھپائی ہو گئی میں کھلی چھت سے اتر آیا بھرے بازار میں سامنے کھڑکی کی ...

    مزید پڑھیے

    یہ فیصلہ بھی مرے دست با کمال میں تھا

    یہ فیصلہ بھی مرے دست با کمال میں تھا جو چھیننے میں مزہ ہے وہ کب سوال میں تھا کس آفتاب کی آہٹ سے شہر جاگ اٹھا وگرنہ میں بھی کہیں مست اپنے حال میں تھا ترے بیاں نے دکھایا جو آئنہ تو کھلا کہ ہر شعور مرے گوشۂ خیال میں تھا مرے سفر کے لیے روز و شب بنے ہی نہیں تمہیں کہو کہ میں کب قید ماہ ...

    مزید پڑھیے

تمام