Saleem Faraz

سلیم فراز

سلیم فراز کی غزل

    ہر چند مرا شوق سفر یوں نہ رہے گا

    ہر چند مرا شوق سفر یوں نہ رہے گا کیا خار سر راہ گزر یوں نہ رہے گا ممکن ہے تری یاد سلگتی رہے تا عمر یہ شعلہ شرر بار مگر یوں نہ رہے گا اس دھوپ میں میری بھی جھلس جائیں گی آنکھیں تیرا بھی رخ غنچۂ تر یوں نہ رہے گا موقعہ ہے گل و برگ سجا لو سر مژگاں ہر فصل میں سر سبز شجر یوں نہ رہے گا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    وہ تیرگیٔ شب ہے کہ گھر لوٹ گئے ہیں

    وہ تیرگیٔ شب ہے کہ گھر لوٹ گئے ہیں اس در سے ابھی نجم و قمر لوٹ گئے ہیں اے موسم گل تو ابھی آیا ہے یہاں پر جب شاخ و شجر دیدۂ تر لوٹ گئے ہیں شب بھر تو تری یاد کا میلہ سا لگا تھا اس بھیڑ میں کچھ خواب سحر لوٹ گئے ہیں ہم ہیں کہ ترے ساتھ چلے جاتے ہیں ورنہ سب لوگ شروعات سفر لوٹ گئے ہیں جب ...

    مزید پڑھیے

    اک ایک لفظ میں کئی پہلو کہاں سے آئے

    اک ایک لفظ میں کئی پہلو کہاں سے آئے جاناں ترے سخن میں یہ جادو کہاں سے آئے جب تیرگی میں چاند ستارے بھی گم ہوئے پلکوں کے شامیانے میں جگنو کہاں سے آئے سلجھا رہا تھا پیچ و خم زندگی مگر ہاتھوں میں یک بہ یک ترے گیسو کہاں سے آئے شکوہ نہیں ہے تجھ سے کہ اس رہ گزار میں سائے نہ ساتھ آئے تو ...

    مزید پڑھیے

    اسے خود کو بدل لینا گوارہ بھی نہیں ہوتا

    اسے خود کو بدل لینا گوارہ بھی نہیں ہوتا ہمارا ایسی دنیا میں گزارہ بھی نہیں ہوتا ہمیں اس موڑ پر لے آتے ہیں یہ خون کے رشتے کہ جینے کے علاوہ اور چارہ بھی نہیں ہوتا یہ سارے چاند سورج ان کے قدموں میں ہی رہتے ہیں ہمارے ہاتھ میں کیوں ایک تارہ بھی نہیں ہوتا ڈبو دیتیں ہمیں دریائے ماہ و ...

    مزید پڑھیے

    ابھی موجود تھی لیکن ابھی گم ہو گئی ہے

    ابھی موجود تھی لیکن ابھی گم ہو گئی ہے نہ جانے کس جہاں میں زندگی گم ہو گئی ہے مرے ہم راہ کیوں وہ شخص چلنا چاہتا ہے سفر کے جوش میں کیا آگہی گم ہو گئی ہے سبھی خوش ہیں کہ سارے گمشدہ پھر مل گئے ہیں مجھے غم ہے کہ اب تیری کمی گم ہو گئی ہے مرے ہونٹوں کو دریا نے کیا سیراب لیکن حیات افروز ...

    مزید پڑھیے

    فصل جنوں میں دامن و دل چاک بھی نہیں

    فصل جنوں میں دامن و دل چاک بھی نہیں کیا دشت ہے کہ اڑتی کہیں خاک بھی نہیں جینا ترا محال تو ہونا ہی تھا کہ تو اس دور کے حساب سے چالاک بھی نہیں رقص جنوں تو خیر بڑی بات ہے مگر اب شہر میں نمائش ادراک بھی نہیں اچھا ہوا کہ جلد ہی تو نے اتار دی جچتی ہے سب پہ درد کی پوشاک بھی نہیں دریا ...

    مزید پڑھیے

    کیا لطف ہواؤں کے سفر میں نہیں رکھا

    کیا لطف ہواؤں کے سفر میں نہیں رکھا یا جذبۂ پرواز ہی پر میں نہیں رکھا ننھا سا دیا بھی شب تیرہ میں بہت ہے سودا کسی خورشید کا سر میں نہیں رکھا بجھ جائیں گے خوابوں کے چراغ آب رواں سے اس ڈر سے انہیں دیدۂ تر میں نہیں رکھا شاید در و دیوار بھی پہچان نہ پائیں برسوں سے قدم اپنے ہی گھر ...

    مزید پڑھیے

    کم رنج موسم گل تر نے نہیں دیا

    کم رنج موسم گل تر نے نہیں دیا دل کے کسی بھی زخم کو بھرنے نہیں دیا سارے ہی مستفیض ہوئے اس کی ذات سے ہم کو ہی ایک پھل بھی شجر نے نہیں دیا مرجھا گئی ہے تلخئ حالات سے مگر کم ہے کہ ہم نے یاد کو مرنے نہیں دیا جلتا چراغ دل شب ہجراں میں دیر تک موقع مگر نمود سحر نے نہیں دیا مخصوص تھی بس اس ...

    مزید پڑھیے

    ہر چند ترے غم کا سہارا بھی نہیں ہے

    ہر چند ترے غم کا سہارا بھی نہیں ہے جینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے ہر روز کیے جاتی ہے یہ زیست تقاضے کیا قرض تھا جو ہم نے اتارا بھی نہیں ہے پہلے تو یہ موجیں بھی حمایت میں کھڑی تھیں اب میرا مددگار کنارہ بھی نہیں ہے جاتا بھی نہیں چھوڑ کے وہ مجھ کو اکیلا اور ساتھ مرا اس کو گوارہ ...

    مزید پڑھیے

    کس نے کہا کہ مجھ کو یہ دنیا نہیں پسند

    کس نے کہا کہ مجھ کو یہ دنیا نہیں پسند بس سامنے کا تھوڑا سا حصہ نہیں پسند برسوں سے اس کے ساتھ گزر کر رہے ہیں ہم ہر چند زندگی کا رویہ نہیں پسند سورج طلوع ہوتے ہی در بند ہو گئے یہ کیسے لوگ ہیں کہ سویرا نہیں پسند خواہش تو ہے مجھے بھی کہ منزل ملے مگر یوں دوسروں کی راہ پہ چلنا نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2