کیا لطف ہواؤں کے سفر میں نہیں رکھا

کیا لطف ہواؤں کے سفر میں نہیں رکھا
یا جذبۂ پرواز ہی پر میں نہیں رکھا


ننھا سا دیا بھی شب تیرہ میں بہت ہے
سودا کسی خورشید کا سر میں نہیں رکھا


بجھ جائیں گے خوابوں کے چراغ آب رواں سے
اس ڈر سے انہیں دیدۂ تر میں نہیں رکھا


شاید در و دیوار بھی پہچان نہ پائیں
برسوں سے قدم اپنے ہی گھر میں نہیں رکھا


ہر روز کوئی تختہ مگر ٹوٹ رہا ہے
ہر چند کہ کشتی کو بھنور میں نہیں رکھا


سورج تو پرایا تھا پرایا ہی رہا وہ
کیوں تم نے شجر راہ گزر میں نہیں رکھا


تکمیل کے پیکر میں جسے ڈھونڈ رہے ہیں
خاکہ بھی سلیمؔ اس کا نظر میں نہیں رکھا