Saleem Faraz

سلیم فراز

سلیم فراز کی غزل

    ایک تو دنیا کا کاروبار ہے

    ایک تو دنیا کا کاروبار ہے عشق کا اس پر الگ آزار ہے کون اس جا صاحب کردار ہے ہر کوئی بس غازیٔ گفتار ہے صبح تک اٹھتی رہی آہ و فغاں کون مجھ میں شام سے بیدار ہے اہل دل آئے یہاں تاخیر سے اب کہاں وہ گرمئ بازار ہے شور میں ڈوبا ہوا ہے گھر تمام اور سناٹا پس دیوار ہے میں ہوا بے لطف اس کے ...

    مزید پڑھیے

    یہ خیال اب تو دل آزار ہمارے لیے ہے

    یہ خیال اب تو دل آزار ہمارے لیے ہے آخر شب کوئی بے دار ہمارے لیے ہے ہم عجب دیکھ کے سرشار ہوئے جاتے ہیں جیسے یہ گرمئ بازار ہمارے لیے ہے خانہ‌ٔ زیست میں رہتا ہے اجالا شب بھر کوئی روشن سر دیوار ہمارے لیے ہے ختم ہونے کو نہیں سختی‌ و آلام سفر راہ میں پھر کوئی کہسار ہمارے لیے ...

    مزید پڑھیے

    سہانے خواب آنکھوں میں سنجونا چاہتا ہوں

    سہانے خواب آنکھوں میں سنجونا چاہتا ہوں میں اب آرام سے کچھ دیر سونا چاہتا ہوں شجر کو بار آور دیکھنا مقصد نہیں ہے کہ میں تو بس زمیں پر خواب بونا چاہتا ہوں مرے ہنستے ہوئے بچو یہ سارا گھر تمہارا میں رونے کے لئے بس ایک کونا چاہتا ہوں نواح زیست میں کیوں بارشیں ہوتی نہیں ہیں میں ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ ماضی کے دریچوں کو کبھی کھولا نہ کر

    دیکھ ماضی کے دریچوں کو کبھی کھولا نہ کر بھاگتے لمحوں کے پیچھے اس طرح دوڑا نہ کر اے مرے سورج مرے سائے کے دیرینہ رفیق راستے میں روشنی بن کر بکھر جایا نہ کر یہ بھی ممکن ہے ترے دیوار و در تیرے نہ ہوں گھر کے اندر بیٹھ کر تو اس طرح رویا نہ کر کہہ لیا کر گاہے گاہے تو کوئی اچھی غزل محفل ...

    مزید پڑھیے

    کچھ نئے خواب ہر اک فصل میں پالے گئے ہیں

    کچھ نئے خواب ہر اک فصل میں پالے گئے ہیں ہم اسی جرم میں بستی سے نکالے گئے ہیں ابھی زنجیر جنوں پاؤں میں ڈالے گئے ہیں دیکھ کس سمت ترے چاہنے والے گئے ہیں کون اس شہر چراغاں میں ابھی آیا تھا دور تک اس کے تعاقب میں اجالے گئے ہیں حاکم وقت کے قدموں پہ سبھی ابن الوقت رکھ کے دستار کو سر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2