وہ تیرگیٔ شب ہے کہ گھر لوٹ گئے ہیں
وہ تیرگیٔ شب ہے کہ گھر لوٹ گئے ہیں
اس در سے ابھی نجم و قمر لوٹ گئے ہیں
اے موسم گل تو ابھی آیا ہے یہاں پر
جب شاخ و شجر دیدۂ تر لوٹ گئے ہیں
شب بھر تو تری یاد کا میلہ سا لگا تھا
اس بھیڑ میں کچھ خواب سحر لوٹ گئے ہیں
ہم ہیں کہ ترے ساتھ چلے جاتے ہیں ورنہ
سب لوگ شروعات سفر لوٹ گئے ہیں
جب شام کے سائے شجر و شاخ سے اترے
ہم تکتے ہوئے راہگزر لوٹ گئے ہیں
آئے تھے بہت طیش میں وہ مجھ کو ڈبونے
دیکھا جو مرا عزم بھنور لوٹ گئے ہیں
سناٹے تجھے ملنے کو آئے تھے سویرے
روکا تھا بہت ہم نے مگر لوٹ گئے ہیں
بس ہم ہیں ترے شہر میں ٹھہرے ہوئے اب تک
سب تاجر مرجان و گہر لوٹ گئے ہیں
اب کے تو یہ صحرا بھی سہارا نہیں دیتا
دیوانے سبھی خاک بہ سر لوٹ گئے ہیں
خوابوں کو سلیمؔ آنکھ میں رکنا ہی نہیں تھا
وہ کر کے مجھے زیر و زبر لوٹ گئے ہیں